اس بیان کو دیکھ کر کوئی بھی شخص آسانی سے یہ غلطی کرسکتا ہے کہ یہ فکر انگیز جملہ کسی روحانی پیشوا کا ہوگا، جس نے دنیا کو ترک کردیا ہے اور اپنی زندگی کسی بڑے مقصد کے لیے وقف کردی ہے۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ مندرجہ بالا بیان، بھارت کے مرد آہن، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بہت سے غیرسیاسی بیانات میں سے ایک ہے۔
ابتدائی زندگی اور کسان جدوجہد
گجرات کے ضلع کیرا میں ناڈیاڈ گاؤں میں، لاڈبائی اور جھاویری بھائی پٹیل کے کسان کنبے کے پانچ بھائیوں اور بہنوں کے کنبے میں پیدا ہوئے ولبھ بھائی، بھارت کی آزادی اور آزاد بھارت کو متحد کرنے کے عظیم مقصد کے لیے کوشاں تھے۔
اپنے ابتدائی برسوں میں ان کی والدہ نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر مرتب کیا تھا۔ ایک عام دیہاتی ماحول میں، ان کی ماں، تمام بچوں کو اکٹھا کرکے رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں سناتی تھیں۔
ان کہانیوں کا اثر نوجوان پٹیل پر روحانی طور پر ہوا، جبکہ ان کے والد نے انھیں کھیتی کسانی کی حقیقی دنیا سے آشنا کرایا۔ چھوٹی عمر میں ولبھ بھائی اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں جایا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے وہ کھیت جوتنے اور مویشی پروری کے کام میں ماہر ہوگئے۔
اپنے کسان اجداد کے تئیں ان کی محبت ہی تھی کہ ایک مرتبہ جب ایک امریکی صحافی نے ان سے ان کی ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کا فوراً جواب اس طرح دیا کہ مجھ سے کچھ اور پوچھیں، میرا کلچر زراعت ہے۔
ان کی جدوجہد کا پہلا مرحلہ، جس کی وجہ سے پٹیل عوامی زندگی میں آگے آئے، بنیادی طور پر ایک کسان رہنما کے طور پر ان کا سفر تھا۔ عوامی زندگی سے آخرکار وہ آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے، جس میں انھوں نے کامیابی سے باروڈ اور کھیڑا میں کامیاب ستیہ گرہ کئے، جہاں انھوں نے اپنی غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور برطانوی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور برطانوی حکومت کو مالیے میں کئے گئے زبردست اضافے کو، واپس لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
سیاسی تدبر اور سیاسی سوجھ بوجھ
سردار پٹیل کا تعلق اس سیاسی فہم و فراست کی حامل قیادت سے تھا جس نے نہ صرف جدوجہد آزادی میں مؤثر تعاون دیا بلکہ آزادی کے بعد بھی قومی تعمیرنو میں، رہنمائی کے فرائض انجام دئے۔
ہم نے حصول آزادی کے لیے سخت جدوجہد کی ہے اور ہمیں اس کے جواز کے لیے بھی جانفشانی سے کام کرنا ہوگا۔
پٹیل اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے کہ آزاد بھارت کو اپنی سول، عسکری اور انتظامی بیوروکریسی کو چلانے کے لیے ایک مضبوط فریم کی ضرورت ہے۔ ان کا ادارہ جاتی نظام میں اعتماد جیسے منظم کمان پر مبنی فوج اور ایک منظم بیوروکریسی دراصل ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ پٹیل ہی تھے جنھوں نے مناسب وقت پر لکشدیپ کی بندرگاہ پر بھارتی بحریہ کو بھیجا تھا، کیونکہ پاکستان بھی عسکری طور پر اہمیت کے حامل جزائر پر قبضہ کرنے کا خواہشمند تھا۔ ہم بہتر طور پر اس بات کا احساس کرسکتے ہیں کہ اگر ہمارے پڑوسی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجاتے تو اس وقت کیا حالت ہوتی۔ انھوں نے بھارت اور چین کے درمیان، تبت کو ایک آزاد خطہ قرار دیے جانے پر بھی زور دیا، جس کا تذکرہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ان کی خط و کتابت میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔