ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس: ہم ہیں مزدور، ہم بھوکھے ہی مر جائیں گے - دلی کے گردو نواح علاقے

عالمی مہلک وبا کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بھارت کو پورے طور پر لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں لیکن دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ مسلسل گھروں میں رہ سکیں۔

کورونا وائرس: ہم ہیں مزدور ہم بھوکھے ہی مر جائیں گے
کورونا وائرس: ہم ہیں مزدور ہم بھوکھے ہی مر جائیں گے
author img

By

Published : Mar 28, 2020, 11:36 AM IST

قومی دارالحکومت دہلی اور اس سے متصل اترپردیش کا صنعتی شہر نو ئیڈا تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں سے بھرا رہتا ہے۔

دلی کے گردو نواح علاقے میں تعمیراتی کام کروانے والے مزدوروں کے لیے کورونا کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن نے ان کے پیٹ کو بھی لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔

دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اس مہلک وبا کا علم ہے اور وہ بھی اس وبا سے بچنے کے لیے تدابیر کر رہیں ہیں لیکن پیٹ کی بھوک انہیں اس بات سے زیادہ ڈرارہی کہ وہ اس وبا کے بدلے بھوک کی تاب نہ لاکر مرجا ئیں گے۔

کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو اس صورت حال کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے اگلے تین ہفتوں تک انھیں کام ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

یہ حقیقت ہےکہ بہت سے لوگوں کے پاس کچھ دنوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔

بھارت میں کورونا متاثرین کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہلاک شدگان ک تعداد کم و بیش 19 ہوچکی ہے۔

کئی ریاستی حکومتوں نے جن میں خاص طور پر شمال مغرب میں اتر پردیش، جنوب میں کیرالا اور دارالحکومت نئی دہلی شامل ہیں کہا ہے کہ وہ مستحق لوگ کے بینک کھاتوں میں براہ راست امدادی رقوم منتقل کریں گی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے بھی دیہاڑی مزدوروں کی مالی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔

مزدوروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں نوے فیصد افرادی قوت غیر سرکاری یا غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہے جن میں رکشہ ڈرائیور، صفائی کا کام کرنے والے، سکیورٹی گارڈز یا چوکیدار، ٹھیلے والے ، کوڑا اکھٹا کرنے والے یا گھروں میں کام کرنے والے شامل ہیں۔

ان کی اکثریت کو پینشن، تنخواہ سمیت چھٹیوں یا بیماری کی چھٹیوں یا کسی انشورنش کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے بینکوں میں اکاؤنٹس بھی نہیں ہیں اور وہ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں۔

ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گھروں سے دور کسی دوسری جگہ یا ریاست میں جا کر کام کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرتے اور روزگار کی تلاش میں ایک ریاست سے دوسری ریاست اور شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے رہتے ہیں۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یقیناً یہ بہت پیچیدہ مسائل ہیں اور کسی بھی حکومت کو کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو برق رفتاری سے کام کرنا ہو گا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بدل رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ'ہمیں کمیونٹی باورچی خانوں کا انتظام کرنا ہو گا تاکہ بڑی مقدار میں کھانا بنا کر متاثرہ افراد تک پہنچایا جا سکے۔ ہمیں نقد رقوم، آٹا اور چاول لوگوں میں تقسیم کرنے ہوں گے یہ دیکھے بغیر کہ کون کسی ریاست سے تعلق رکھتا ہے'۔

اکھلیش یادو کو اپنی ریاست اتر پردیش کے بارے میں بہت تشویش ہے کیوں کہ یہ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے جس کی مجموعی آبادی 22 کروڑ کے قریب ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'اس وبا کو پھلینے سے روکنے کے لیے انھیں لوگوں کے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے سے بھی روکنا ہو گا اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگوں تک خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے'۔

اکھلیش یادو کا کہنا تھا 'کسی بھی مشکل وقت میں شہروں سے آ کر کام کرنے والے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں جو اس وبائی صورت حال میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے'۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ انھوں نے سرکاری اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ایسے لوگوں کا پتا لگائے گی جو دوسری جگہوں یا شہروں سے آئے ہوئے ہیں اور جس کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہو گی اس کی مدد کی جائے گی۔

پورے بھارت میں ریل سہولیات کو بھی اس وبا کے پیش نظر پوری طرح بند کر دیا گیا ہے۔

مسافر گاڑیوں کی آمدورفت کے معطل ہونے سے چند دنوں قبل لاکھوں لوگوں نے کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں دہلی، ممبئی اور احمد آباد سے چھتوں تک بھری ہوئی ٹرینوں میں بیٹھ کر اترپردیش اور بہار میں اپنے اپنے قصبوں اور دیہات کا سفر کیا۔

اس کی وجہ سے کورونا وائرس کے ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیل جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ماہرین کو ڈر ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بھارت کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔

بھارت میں کروڑوں لوگ چھوٹے کاروباری ہیں جو دکانیں یا چھوٹا موٹا کاروبار چلاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:'روزانہ 100 کورونا مریضوں کے علاج کے لیے دہلی تیار ہے'


ملک کے تمام تاریخی سیاحتی مقامات بند ہیں جس کا اثر ان لوگوں پر بری طرح پڑے گا جن کی روزی کا انحصار ان مقامات کی سیر کرنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں پر تھا۔ساتھ ساتھ ٹیکسی سروسز اوبر اور اولا کے ڈرائیوروں کا بھی یہی حال ہے۔

قومی دارالحکومت دہلی اور اس سے متصل اترپردیش کا صنعتی شہر نو ئیڈا تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں سے بھرا رہتا ہے۔

دلی کے گردو نواح علاقے میں تعمیراتی کام کروانے والے مزدوروں کے لیے کورونا کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن نے ان کے پیٹ کو بھی لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔

دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اس مہلک وبا کا علم ہے اور وہ بھی اس وبا سے بچنے کے لیے تدابیر کر رہیں ہیں لیکن پیٹ کی بھوک انہیں اس بات سے زیادہ ڈرارہی کہ وہ اس وبا کے بدلے بھوک کی تاب نہ لاکر مرجا ئیں گے۔

کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو اس صورت حال کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے اگلے تین ہفتوں تک انھیں کام ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

یہ حقیقت ہےکہ بہت سے لوگوں کے پاس کچھ دنوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔

بھارت میں کورونا متاثرین کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہلاک شدگان ک تعداد کم و بیش 19 ہوچکی ہے۔

کئی ریاستی حکومتوں نے جن میں خاص طور پر شمال مغرب میں اتر پردیش، جنوب میں کیرالا اور دارالحکومت نئی دہلی شامل ہیں کہا ہے کہ وہ مستحق لوگ کے بینک کھاتوں میں براہ راست امدادی رقوم منتقل کریں گی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے بھی دیہاڑی مزدوروں کی مالی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔

مزدوروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں نوے فیصد افرادی قوت غیر سرکاری یا غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہے جن میں رکشہ ڈرائیور، صفائی کا کام کرنے والے، سکیورٹی گارڈز یا چوکیدار، ٹھیلے والے ، کوڑا اکھٹا کرنے والے یا گھروں میں کام کرنے والے شامل ہیں۔

ان کی اکثریت کو پینشن، تنخواہ سمیت چھٹیوں یا بیماری کی چھٹیوں یا کسی انشورنش کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے بینکوں میں اکاؤنٹس بھی نہیں ہیں اور وہ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں۔

ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گھروں سے دور کسی دوسری جگہ یا ریاست میں جا کر کام کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرتے اور روزگار کی تلاش میں ایک ریاست سے دوسری ریاست اور شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے رہتے ہیں۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یقیناً یہ بہت پیچیدہ مسائل ہیں اور کسی بھی حکومت کو کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو برق رفتاری سے کام کرنا ہو گا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بدل رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ'ہمیں کمیونٹی باورچی خانوں کا انتظام کرنا ہو گا تاکہ بڑی مقدار میں کھانا بنا کر متاثرہ افراد تک پہنچایا جا سکے۔ ہمیں نقد رقوم، آٹا اور چاول لوگوں میں تقسیم کرنے ہوں گے یہ دیکھے بغیر کہ کون کسی ریاست سے تعلق رکھتا ہے'۔

اکھلیش یادو کو اپنی ریاست اتر پردیش کے بارے میں بہت تشویش ہے کیوں کہ یہ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے جس کی مجموعی آبادی 22 کروڑ کے قریب ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'اس وبا کو پھلینے سے روکنے کے لیے انھیں لوگوں کے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے سے بھی روکنا ہو گا اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگوں تک خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے'۔

اکھلیش یادو کا کہنا تھا 'کسی بھی مشکل وقت میں شہروں سے آ کر کام کرنے والے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں جو اس وبائی صورت حال میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے'۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ انھوں نے سرکاری اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ایسے لوگوں کا پتا لگائے گی جو دوسری جگہوں یا شہروں سے آئے ہوئے ہیں اور جس کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہو گی اس کی مدد کی جائے گی۔

پورے بھارت میں ریل سہولیات کو بھی اس وبا کے پیش نظر پوری طرح بند کر دیا گیا ہے۔

مسافر گاڑیوں کی آمدورفت کے معطل ہونے سے چند دنوں قبل لاکھوں لوگوں نے کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں دہلی، ممبئی اور احمد آباد سے چھتوں تک بھری ہوئی ٹرینوں میں بیٹھ کر اترپردیش اور بہار میں اپنے اپنے قصبوں اور دیہات کا سفر کیا۔

اس کی وجہ سے کورونا وائرس کے ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیل جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ماہرین کو ڈر ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بھارت کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔

بھارت میں کروڑوں لوگ چھوٹے کاروباری ہیں جو دکانیں یا چھوٹا موٹا کاروبار چلاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:'روزانہ 100 کورونا مریضوں کے علاج کے لیے دہلی تیار ہے'


ملک کے تمام تاریخی سیاحتی مقامات بند ہیں جس کا اثر ان لوگوں پر بری طرح پڑے گا جن کی روزی کا انحصار ان مقامات کی سیر کرنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں پر تھا۔ساتھ ساتھ ٹیکسی سروسز اوبر اور اولا کے ڈرائیوروں کا بھی یہی حال ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.