سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 6/ دسمبر 1992/ کو بابری مسجد مہندم کرنے والے تمام 32ملزمین کو باعزت بری کر دیا ہے جس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ’’دن کی روشنی میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا، دنیا نے دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اور زمیں بوس کر دیا۔‘‘
انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کن لوگوں کی سرپرستی میں بابری مسجد شہید ہوئی اور کون لوگ یوپی کے اقتدار اعلیٰ پرفائز تھے باوجود اس کے سی بی آئی نے جو فیصلہ سنایا وہ حیران کرنے والا ہے۔‘‘
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے کہا کہ9/ نومبر 2019/ کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے بابری مسجد - رام جنم بھومی حق ملکیت پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی تھی چنانچہ بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو مجرمانہ عمل قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کی شہ پر یہ کام انجام دیا گیا وہ بھی مجرم ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ ’’جب بابری مسجد شہید کی گئی اور شہید کرنے والے مجرم ہیں تو پھر سی بی آئی کی نظر میں سب بے گناہ کیسے ہو گئے؟ یہ انصاف ہے یا انصاف کا خون ہے؟‘‘
مولانا مدنی نے کہا کہ ’’مسجد جن لوگوں کی سرپرستی میں توڑی گئی اور جنہوں نے مسجد کے توڑنے کو اپنی سیاست اور اقتدار کی بلندی کا سبب سمجھا تھا، وہ باعزت بری کر دیے گئے، اگرچہ وہ لوگ بی جے پی ہی کے دور اقتدار میں سیاسی اعتبار سے بے حیثیت اور بے نام و نشان ہو گئے جو اللہ کی بے آواز لاٹھی کی مار ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے کہا کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کئے جاتے ہیں۔ ’’عقل حیران ہے کہ اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔ اس فیصلہ کو کس نظریہ سے دیکھا جائے۔ کیا اس فیصلہ سے عوام کا عدالت پر اعتماد بحال رہ سکے گا؟‘‘