ETV Bharat / bharat

اس فیصلہ میں نہ انصاف ملا اود نہ ہی کہیں دکھا: محمود مدنی

author img

By

Published : Sep 30, 2020, 9:46 PM IST

جس طرح صریح شہادتوں کو نظر انداز کیا گیا اور اعلانیہ ملزمین کے شرمناک اور مجرمانہ عمل کی پردہ پوشی کی گئی ہے، اس کی نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمین کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے طویل انتظار کے بعد آج باعزت بری کردیا۔ اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اس فیصلہ کو افسوس ناک اور انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی بتایا ہے۔

jamiat e ulema hind general secretary mahmood madani
فائل

انہوں نے کہا کہ، 'یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں نہ انصاف کیا گیا ہے اور نہ اس میں کہیں انصاف دکھتا ہے، اس نے عدلیہ کی آزادی پر حال میں لگائے گئے سوالیہ نشان کو مزید گہرا کردیا ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث اور جگ ہنسائی کا موجب ہے۔'

مولانا محمود مدنی نے مزید کہا کہ، 'یہ فیصلہ تشویش ناک بھی ہے کیوں کہ جہاں ایک فسطائی عناصر جو کہ دیگر مساجد کو نشانہ بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں، انھیں شہ ملے گی اور ملک میں امن وامان کو زبردست خطرہ لاحق ہو گا، وہیں دوسری طرف ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے درمیان مایوسی پھیلے گی اور عدالتوں پر اعتماد میں کمی آنے کے باعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سے حل کیے جانے کے بجائے زور زبردستی اور تشدد کے ذریعہ طے کرنے کا رواج قائم ہو گا۔'

مولانا محمود مدنی نے ملک کے عام مفاد، نیک نامی اور انصاف کے تقاضوں کے مدنظر شدت سے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ سی بی آئی کو اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کرنی چاہیے اور اسے یقینی بنانا چاہیے کہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے نقصانات سے ملک کو کیسے بچایا جاسکے۔

محمود مدنی نے کہا کہ، 'چھ دسمبر کو بابری مسجد کو منہدم کرنا ایک مجرمانہ عمل تھا اور اس کے مرتکبین کو سزا ملنی چاہیے، 6/دسمبر 1992ء کو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئی فسطائی طاقتوں، سیاسی لیڈروں اور ان کے متبعین نے اشتعال انگیز تقریریں کیں اور نعرے لگائے اور پھر مل کر چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کو منہدم کردیا، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کے ویڈیو اور فوٹو بنائے جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔

اس لیے یہ کہا جانا کہ بابری مسجد کا انہدام سازش نہیں تھی، سراسر غلط ہے، کیوں کہ اتنی مضبوط عمارت کو کثیر وسائل کے بغیر اچانک منہدم نہیں کیا جاسکتا، اس سلسلے میں جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ بھی چشم کشا ہے۔

اس کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اسمعیل فاروقی کیس 1994 کے فیصلے میں واضح طور سے کہا تھا کہ، 'جن لوگوں نے مسجد کو منہدم کیا ہے وہ کریمنل ہیں، ایسا کرنے والوں نے مجرمانہ اور شرمناک کام کیا ہے، ہندو سماج کو اپنے ہم مذہب لوگوں کے ایسے عمل پر نادم ہونا چاہیے۔ انھوں نے نہ صرف ایک مذہبی عبادت خانہ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملک کے قانون، سیکولرزم اور جمہوریت کے اصولوں کو بھی پامال کیا ہے۔'

مزید پڑھیں:

'تم ہی قاتل، تم ہی مخبر، تم ہی منصف ٹھہرے'

حال میں بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں بھی سپریم کورٹ نے خاص طور سے کہا کہ، 'مسجد کی تعمیر کسی مذہبی ڈھانچہ کو توڑ کر نہیں کی گئی بلکہ 6/دسمبر کو ایک مذہبی ڈھانچہ منہدم کیا گیا، جو کچھ بھی اس دن انجام دیا گیا وہ ایک مجرمانہ عمل تھا اور ملک کے قانون کی شدید خلاف ورزی تھی۔'

انہوں نے کہا کہ، 'یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں نہ انصاف کیا گیا ہے اور نہ اس میں کہیں انصاف دکھتا ہے، اس نے عدلیہ کی آزادی پر حال میں لگائے گئے سوالیہ نشان کو مزید گہرا کردیا ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث اور جگ ہنسائی کا موجب ہے۔'

مولانا محمود مدنی نے مزید کہا کہ، 'یہ فیصلہ تشویش ناک بھی ہے کیوں کہ جہاں ایک فسطائی عناصر جو کہ دیگر مساجد کو نشانہ بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں، انھیں شہ ملے گی اور ملک میں امن وامان کو زبردست خطرہ لاحق ہو گا، وہیں دوسری طرف ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے درمیان مایوسی پھیلے گی اور عدالتوں پر اعتماد میں کمی آنے کے باعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سے حل کیے جانے کے بجائے زور زبردستی اور تشدد کے ذریعہ طے کرنے کا رواج قائم ہو گا۔'

مولانا محمود مدنی نے ملک کے عام مفاد، نیک نامی اور انصاف کے تقاضوں کے مدنظر شدت سے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ سی بی آئی کو اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کرنی چاہیے اور اسے یقینی بنانا چاہیے کہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے نقصانات سے ملک کو کیسے بچایا جاسکے۔

محمود مدنی نے کہا کہ، 'چھ دسمبر کو بابری مسجد کو منہدم کرنا ایک مجرمانہ عمل تھا اور اس کے مرتکبین کو سزا ملنی چاہیے، 6/دسمبر 1992ء کو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئی فسطائی طاقتوں، سیاسی لیڈروں اور ان کے متبعین نے اشتعال انگیز تقریریں کیں اور نعرے لگائے اور پھر مل کر چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کو منہدم کردیا، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کے ویڈیو اور فوٹو بنائے جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔

اس لیے یہ کہا جانا کہ بابری مسجد کا انہدام سازش نہیں تھی، سراسر غلط ہے، کیوں کہ اتنی مضبوط عمارت کو کثیر وسائل کے بغیر اچانک منہدم نہیں کیا جاسکتا، اس سلسلے میں جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ بھی چشم کشا ہے۔

اس کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اسمعیل فاروقی کیس 1994 کے فیصلے میں واضح طور سے کہا تھا کہ، 'جن لوگوں نے مسجد کو منہدم کیا ہے وہ کریمنل ہیں، ایسا کرنے والوں نے مجرمانہ اور شرمناک کام کیا ہے، ہندو سماج کو اپنے ہم مذہب لوگوں کے ایسے عمل پر نادم ہونا چاہیے۔ انھوں نے نہ صرف ایک مذہبی عبادت خانہ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملک کے قانون، سیکولرزم اور جمہوریت کے اصولوں کو بھی پامال کیا ہے۔'

مزید پڑھیں:

'تم ہی قاتل، تم ہی مخبر، تم ہی منصف ٹھہرے'

حال میں بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں بھی سپریم کورٹ نے خاص طور سے کہا کہ، 'مسجد کی تعمیر کسی مذہبی ڈھانچہ کو توڑ کر نہیں کی گئی بلکہ 6/دسمبر کو ایک مذہبی ڈھانچہ منہدم کیا گیا، جو کچھ بھی اس دن انجام دیا گیا وہ ایک مجرمانہ عمل تھا اور ملک کے قانون کی شدید خلاف ورزی تھی۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.