ETV Bharat / bharat

دفاعی بجٹ 2020: اُگلتے بنے نہ نگلتے

دفاعی تجزیہ کار سنجیو کے آر برووا نے بجٹ 2020 پر اپنا رد عمل ظاہر کیا کہ بھارت سنہ 2025 تک تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر نظر آنا چاہتا ہے۔ لیکن ایسے میں دفاعی صلاحیت کو نظر انداز کرنا کیسے مناسب ہو سکتا ہے؟

دفاعی بجٹ 2020: اُگلتے بنے نہ نگلتے
دفاعی بجٹ 2020: اُگلتے بنے نہ نگلتے
author img

By

Published : Feb 3, 2020, 5:26 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 12:53 AM IST

جہاں تک بجٹ 2020-21 کا تعلق ہے، اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت اپنے بیان پر قائم نہیں رہتی۔ حکومت کے پاس فوج کے لیے کوئی رقم نہیں ہے۔

یہ گزشتہ برس کی بات ہے کہ جب 27 فروری 2019 کو علی الصبح پاکستان کے فضائی حدود میں بھارتی فضائیہ کے مگ 21 جنگی طیارہ حادثے کے زد میں آنے سے قبل پائلٹ طیارہ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن اس طیارہ نے حادثے سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 جنگی طیارہ سے مقابلہ کیا تھا۔یہ ایک ناہموار موازنہ ہے جہاں ٹیکنالوجی صلاحیتیں غالب ہوتی ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں تیار کردہ ایف 16 اور روسی نژاد پرانے مگ 21 کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔

پرانے اور جنگی طیارے کی کم صلاحیتوں والے بیٹرے کے بارے میں کی جانے والی بیان بازی ہمشہ شور مچاتی ہے۔ لیکن ایک برس کے بعد جب سنیچر کو بجٹ پیش کیا گیا، وہاں اس بیان بازی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اس کے برعکس، بھارتی فضائیہ کو پچھلے برس کے مقابلے رواں برس کے بجٹ میں نئے جنگی طیارے اور فوجی ہتھیار خریدنے کے لیے کم رقم مختص کیے گئے ہیں۔ رواں برس بھارتی فضائیہ کو 43 ہزار 280 کروڑ روپے دیے گئے ہیں جو گزشتہ برس کے نظرثانی تخمینے کے مقابلے 1 ہزار 588 کروڑ روپے کم ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بھارت کے پاس محض 13 اسکواڈران موجود ہیں۔ایسے میں جب دو جہتی جنگ ہوتی ہے تب بھارت کو کم از کم 43 جنگی طیاروں کے اسکواڈران کی ضرورت ہوگی۔
بجٹ 2020-21 کی بات کریں تو وزیر خزانہ نے سنیچر کے روز دفاعی فورسز کے لیے صرف 3.37 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے، جو 2019-20 کی بجٹ میں3.18 تھا اور 2018-19 میں 2.95 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا۔ دفاعی فورسز متعدد محاذوں پر جدوجہد کررہی ہے جن میں جدیدیت اور خریداری شامل ہیں۔ لیکن یہاں متصادم پاکستان اور چینی فوج کا ذکر نہیں ہورہا ہے جو اپنی افواج کو تیزی سے جدیدیت بنا رہی ہے۔

بجٹ 2020 کے فنڈ میں نئے ہتھیاروں اور حصول یا خریداری کے لیے 10 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا رقم مختص کیا گیا ہے۔ مستقبل میں فوج کو انفنٹری جنگی گاڑیوں (ایف آئی سی وی) اور زیادہ توپوں کی ضرورت ہوگی۔ بھارتی فضائیہ کو جنگجوؤں، بحریہ کو زیادہ آبدوزیں، مائن سوپینگ ویسیل اور ہیلی کوپٹرز، زیادہ راڈار اور مواصلاتی نظاموں کی اشد ضرورت ہے۔

بظاہر خواہشات کی فہرست لامحدود ہوتی ہے۔ لیکن اس بجٹ میں دل کو تسلی دینے والی بات غائب تھی۔

فنڈ کی کمی سے نئی تخلیق شدہ تنظیموں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جو دفاعی خلائی ایجنسی (ڈی ایس اے) اور ڈیفنس سائبر ایجنسی (ڈی سی اے) جیسے جدید اسٹریٹجک ٹکنالوجی پر توجہ دیں گی، جو فوجی تحقیق اور ترقی کی بات نہیں کریں گے۔


فی الحال ابھی بھارت اسٹیلتھ ویپن (ہتھیار)، ڈرون، سووارم، ہائپرسونک ہتھیار، الیکٹرومیگنیٹک ہتھیار، ریل گنس کو حاصل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے ۔ یہ مستقبل کے ہتھیار ہیں اور جب ملک کا مقصد سنہ 2025 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر نظر آنا چاہتی ہے۔ ایسے میں ان جدیدیت کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہوگا۔

لیکن حکومت کے لیے اس معاشی بحران کے پس منظر میں زیادہ سے زیادہ بہتر ہتھیاروں کی ضرورت کو متوازن کرنا تلوار میں چلنے کے برابر ہوگا۔

لہذا ابھی وزارت دفاع کے پاس مالیاتی دانشمندی کے تین سدا بہار منتروں کی پاسداری کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ پہلا کارگردگی کو بہتر بنانا اور کم رقم کو کس طرح استعمال اور خرچ کرنا ہے، دوسرا خود انحصاری کو فروغ دینا اور تیسرا دفاعی شعبے میں نجی شعبے کی شراکت داری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

جہاں تک بجٹ 2020-21 کا تعلق ہے، اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت اپنے بیان پر قائم نہیں رہتی۔ حکومت کے پاس فوج کے لیے کوئی رقم نہیں ہے۔

یہ گزشتہ برس کی بات ہے کہ جب 27 فروری 2019 کو علی الصبح پاکستان کے فضائی حدود میں بھارتی فضائیہ کے مگ 21 جنگی طیارہ حادثے کے زد میں آنے سے قبل پائلٹ طیارہ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن اس طیارہ نے حادثے سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 جنگی طیارہ سے مقابلہ کیا تھا۔یہ ایک ناہموار موازنہ ہے جہاں ٹیکنالوجی صلاحیتیں غالب ہوتی ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں تیار کردہ ایف 16 اور روسی نژاد پرانے مگ 21 کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔

پرانے اور جنگی طیارے کی کم صلاحیتوں والے بیٹرے کے بارے میں کی جانے والی بیان بازی ہمشہ شور مچاتی ہے۔ لیکن ایک برس کے بعد جب سنیچر کو بجٹ پیش کیا گیا، وہاں اس بیان بازی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اس کے برعکس، بھارتی فضائیہ کو پچھلے برس کے مقابلے رواں برس کے بجٹ میں نئے جنگی طیارے اور فوجی ہتھیار خریدنے کے لیے کم رقم مختص کیے گئے ہیں۔ رواں برس بھارتی فضائیہ کو 43 ہزار 280 کروڑ روپے دیے گئے ہیں جو گزشتہ برس کے نظرثانی تخمینے کے مقابلے 1 ہزار 588 کروڑ روپے کم ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بھارت کے پاس محض 13 اسکواڈران موجود ہیں۔ایسے میں جب دو جہتی جنگ ہوتی ہے تب بھارت کو کم از کم 43 جنگی طیاروں کے اسکواڈران کی ضرورت ہوگی۔
بجٹ 2020-21 کی بات کریں تو وزیر خزانہ نے سنیچر کے روز دفاعی فورسز کے لیے صرف 3.37 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے، جو 2019-20 کی بجٹ میں3.18 تھا اور 2018-19 میں 2.95 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا۔ دفاعی فورسز متعدد محاذوں پر جدوجہد کررہی ہے جن میں جدیدیت اور خریداری شامل ہیں۔ لیکن یہاں متصادم پاکستان اور چینی فوج کا ذکر نہیں ہورہا ہے جو اپنی افواج کو تیزی سے جدیدیت بنا رہی ہے۔

بجٹ 2020 کے فنڈ میں نئے ہتھیاروں اور حصول یا خریداری کے لیے 10 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا رقم مختص کیا گیا ہے۔ مستقبل میں فوج کو انفنٹری جنگی گاڑیوں (ایف آئی سی وی) اور زیادہ توپوں کی ضرورت ہوگی۔ بھارتی فضائیہ کو جنگجوؤں، بحریہ کو زیادہ آبدوزیں، مائن سوپینگ ویسیل اور ہیلی کوپٹرز، زیادہ راڈار اور مواصلاتی نظاموں کی اشد ضرورت ہے۔

بظاہر خواہشات کی فہرست لامحدود ہوتی ہے۔ لیکن اس بجٹ میں دل کو تسلی دینے والی بات غائب تھی۔

فنڈ کی کمی سے نئی تخلیق شدہ تنظیموں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جو دفاعی خلائی ایجنسی (ڈی ایس اے) اور ڈیفنس سائبر ایجنسی (ڈی سی اے) جیسے جدید اسٹریٹجک ٹکنالوجی پر توجہ دیں گی، جو فوجی تحقیق اور ترقی کی بات نہیں کریں گے۔


فی الحال ابھی بھارت اسٹیلتھ ویپن (ہتھیار)، ڈرون، سووارم، ہائپرسونک ہتھیار، الیکٹرومیگنیٹک ہتھیار، ریل گنس کو حاصل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے ۔ یہ مستقبل کے ہتھیار ہیں اور جب ملک کا مقصد سنہ 2025 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر نظر آنا چاہتی ہے۔ ایسے میں ان جدیدیت کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہوگا۔

لیکن حکومت کے لیے اس معاشی بحران کے پس منظر میں زیادہ سے زیادہ بہتر ہتھیاروں کی ضرورت کو متوازن کرنا تلوار میں چلنے کے برابر ہوگا۔

لہذا ابھی وزارت دفاع کے پاس مالیاتی دانشمندی کے تین سدا بہار منتروں کی پاسداری کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ پہلا کارگردگی کو بہتر بنانا اور کم رقم کو کس طرح استعمال اور خرچ کرنا ہے، دوسرا خود انحصاری کو فروغ دینا اور تیسرا دفاعی شعبے میں نجی شعبے کی شراکت داری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 12:53 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.