ETV Bharat / bharat

ایرانی وزیرِ خارجہ کا دورہ فرانس، عالمی رہنما حیرت زدہ

author img

By

Published : Aug 26, 2019, 10:36 AM IST

Updated : Sep 28, 2019, 7:20 AM IST

ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے فرانس کا غیر اعلانیہ دورہ کیا جب کہ فرانس میں جی 7 سربراہی اجلاس جاری ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ کا دورہ فرانس، عالمی رہنما حیرت زدہ

اس جلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر عالمی رہنما شریک ہیں۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ضمنی بات چیت میں شرکت کی۔

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ایران اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں کیوں کہ گذشتہ برس امریکہ نے ایران سے جوہری معاہدے کی دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جواد ظریف کے غیر اعلانیہ دورے پر امریکی وفد حیران تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے فرانسیسی وزیر خارجہ اور فرانس کے صدر سے 'تعمیری' بات چیت کی ہے۔

ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'آگے کی راہ مشکل ہے لیکن کوششیں کی جا سکتی ہیں۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے جرمن اور برطانوی عہدیداروں کو ایک مشترکہ بریفنگ دی ہے'۔

سربراہی اجلاس کے موقع پر جمعہ کے روز پیرس میں جواد ظریف نے صدر ایمانوئل میکخواں سے بھی ملاقات کی تھی۔

پانچ دوسرے ممالک بشمول فرانس اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور اس کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئی نئی معاشی پابندیوں کے بعد ایران نے جوابی اقدام کے طور پر جوہری سرگرمیاں پھر سے شروع کر دی تھیں۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں کشیدگی کو کم کرنے اور جوہری معاہدے کو مکمل ختم ہونے سے بچانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ نے ایرانی وزیر خارجہ پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ امریکی عہدیداروں نے ان پر ایرانی رہنما کے 'لاپروائی پر مبنی ایجنڈے' کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے تھے۔

فرانسیسی عہدیداروں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی وفد کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایرانی وزیرِ خارجہ کو مدعو کیا گیا تھا لیکن وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے اس دورے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔

جی 7 ممالک تہران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی متفقہ حکمت عملی پر متفق ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے فرانس کی ثالثی کی کوششوں کو رد کر دیا تھا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنا لائحہ عمل خود اختیار کریں گے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں کسی کو بات چیت کرنے سے روک نہیں سکتا۔ اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کر سکتے ہیں'۔

برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ کے سربراہان نے گذشتہ ہفتے کے اختتامی دنوں میں 45ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کی ہے۔

اس جلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر عالمی رہنما شریک ہیں۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ضمنی بات چیت میں شرکت کی۔

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ایران اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں کیوں کہ گذشتہ برس امریکہ نے ایران سے جوہری معاہدے کی دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جواد ظریف کے غیر اعلانیہ دورے پر امریکی وفد حیران تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے فرانسیسی وزیر خارجہ اور فرانس کے صدر سے 'تعمیری' بات چیت کی ہے۔

ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'آگے کی راہ مشکل ہے لیکن کوششیں کی جا سکتی ہیں۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے جرمن اور برطانوی عہدیداروں کو ایک مشترکہ بریفنگ دی ہے'۔

سربراہی اجلاس کے موقع پر جمعہ کے روز پیرس میں جواد ظریف نے صدر ایمانوئل میکخواں سے بھی ملاقات کی تھی۔

پانچ دوسرے ممالک بشمول فرانس اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور اس کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئی نئی معاشی پابندیوں کے بعد ایران نے جوابی اقدام کے طور پر جوہری سرگرمیاں پھر سے شروع کر دی تھیں۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں کشیدگی کو کم کرنے اور جوہری معاہدے کو مکمل ختم ہونے سے بچانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ نے ایرانی وزیر خارجہ پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ امریکی عہدیداروں نے ان پر ایرانی رہنما کے 'لاپروائی پر مبنی ایجنڈے' کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے تھے۔

فرانسیسی عہدیداروں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی وفد کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایرانی وزیرِ خارجہ کو مدعو کیا گیا تھا لیکن وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے اس دورے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔

جی 7 ممالک تہران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی متفقہ حکمت عملی پر متفق ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے فرانس کی ثالثی کی کوششوں کو رد کر دیا تھا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنا لائحہ عمل خود اختیار کریں گے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں کسی کو بات چیت کرنے سے روک نہیں سکتا۔ اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کر سکتے ہیں'۔

برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ کے سربراہان نے گذشتہ ہفتے کے اختتامی دنوں میں 45ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 28, 2019, 7:20 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.