خالد سیفی، عمر خالد اور طاہر حسین کے قریبی دوستوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی جانب سے دائر کردہ اسٹیٹس رپورٹ میں فسادات کو سعودی عرب اور پی ایف آئی سے روابط کا بھی دعوی کیا گیا ہے۔ اسٹیسٹس رپورٹ کے مطابق 'سنگاپور میں ایک این آر آئی (بھارتی نژاد) کو سعودی عرب واپس بھیجنے کے لیے فنڈز اکٹھا کیے گئے تھے۔'
تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ سابق کانگریس کونسلر عشرت جہاں کو غازی آباد اور مہاراشٹر کے دیگر رشتہ داروں سے ایک مشتبہ شخص کے ذریعے رقومات حاصل ہوئی تھیں، عشرت کو دہلی پولیس نے دہلی فسادات کیس میں ملوث ہونے پر مارچ میں گرفتار کیا تھا۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے خالد سیفی اور عشرت جہاں سے پوچھ گچھ کو روک دیا گیا تھا۔
مزید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خالد سیفی کو سنگاپور سے این آر آئی اکاؤنٹ کے ذریعے فسادات کے لیے فنڈز ملے تھے، یہ رقم بھارت میں ایک این جی او کو منتقل کی گئی تھی، جو عمر خالد اور اس کے میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھی کے ذریعہ چلایا جاتا ہے، جو قرنطینہ میں ہیں، سنگاپور کے این آر آئی کی شناخت کے لیے تفتیش جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی فسادات کی پرتیں دھیرے دھیرے کھُل رہی ہیں
پولیس کا کہنا ہے کہ 'خالد سیفی کے موبائل فون سے رقم کی لین دین اور تبادلے کے سلسلے کا انکشاف ہو سکتا ہے، میڈیا ذرائع کے مطابق 'جہاں تک پیسوں کی لین دین کا تعلق ہے اس کے فون کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال ضروری ہے، اس تفتیش سے پولیس کو سیفی کا ذاکر نائک سے رابطے کا بھی پتہ چلے گا۔'
پولیس کا کہنا ہے کہ 'خالد سیفی کے پاسپورٹ کی تفصیلات سے ثابت ہوا ہے کہ اس نے فسادات کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے ذاکر نائک سمیت کچھ لوگوں سے ملاقات کی تھی، اور متعدد بیرونی ممالک کا سفر کیا تھا۔