ETV Bharat / bharat

ایک ملک ایک انتخاب کے پیچھے بی جے پی کا خفیہ مقصد - Lok Sabha Election

انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے سب سے پہلا کام ایک ملک ایک انتخابات منصوبہ کے لیے کیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ہی ساتھ منعقد ہوں گے۔

BJP LOK SABHA SEATS
author img

By

Published : Jun 22, 2019, 2:29 PM IST

Updated : Jun 22, 2019, 2:43 PM IST

انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے سب سے پہلا کام ایک ملک ایک انتخابات منصوبہ کے لیے کیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ہی ساتھ منعقد ہوں گے۔

اس منصوبے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

دستور کی کئی دفعات اور عوام کی نمائندگی کرنے والی دفعہ 1951 میں بھی تبدیلی لانی پڑے گی۔

ملک کی تمام تسلیم شدہ قومی اور ریاستی پارٹیوں کو اس کے لیے راضی ہونا ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ منصوبہ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے کیونکہ وہاں کی اسمبلی کی معیاد چھ سالہ ہے نہ کہ پانچ سالہ ۔

بی جے پی کیوں اس منصوبے کو لے کر اتنی سنجیدہ ہے۔

سن 2014 اور 2019 کے انتخابات میں ثابت ہوچکا ہے کہ بی جے پی ریاستی انتخابات سے کہیں بڑھ کر اچھا مظاہرہ قومی انتخابات میں کرسکتی ہے۔

بی جے پی نے ماضی میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جیتے ہیں لیکن 2014 اور 2019 میں اس پارٹی کا ووٹ شئیر اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں لوک سبھا انتخابات میں زیادہ بہتر تھا۔

سب سے زیادہ توقعات بہار اور مہاراشٹرا سے تھیں لیکن یہ حقیقی طور پر گنتی میں شمار نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہاں بی جے پی کا اتحاد بڑی جماعتوں سے تھا۔ ایک اور توقع ریاست تریپور میں تھی جہاں 2014 میں بی جے پی ایک چھوٹی پارٹی تھی لیکن بتدریج بڑھ رہی ہے۔

اب تک 2014 اور 2019 میں بی جے پی کا رائے دیہی کا تناسب لوک سبھا انتخابات میں زیادہ تھا جبکہ اسمبلی انتخابات میں کم تھا۔ ان میں وہ اڑیسہ ، آندھرا پردیش ، سکم اور اروناچل پردیش شامل نہیں ہیں ۔

بی جے پی کا اندازہ ہے کہ اگر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات بیک وقت منعقد ہوتے ہیں تو اس سے اسمبلی میں بھی بی جے پی کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور وہ اسمبلی میں بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں تو بیلٹ پر دونوں جگہوں پر مودی ہوں گے جن کی مخالف مشکل ہوگی

اگر 2019 کے انتخابات میں ریاستی اور قومی سطح کے انتخابات بیک وقت منعقد کئے جاتے تو بی جے پی کو 19 ریاستوں میں اکثریت حاصل ہوتی۔ تاملناڈو ، کیرالہ ، پڈو چیری ، آندھرا پردیش ، تلنگانہ ، اڈیشہ، مغربی بنگال ، میگھالیہ ، میزورم ، سکم پنجاب اور جموں و کشمیر اس سے مستثنیٰ ہوتے۔

این ڈی اے اس وقت 14 ریاستوں میں برسر اقتدار ہے جبکہ 16 میں اپوزیشن میں ہے جبکہ ریاست جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، کرناٹک اور دہلی میں بی جے پی ریاست میں اپوزیشن کی صف میں ہے لیکن لوک سبھا انتخابات میں اسے اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یو پی اے صرف دو ریاستوں ٹاملناڈو اور میگالیہ میں ہے۔

بی جے پی مغربی بنگال میں بھی کافی شیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جہاں ممتابنرجی کی حکومت ہے اس کے علاوہ بی جے پی پر امید ہے کہ وہ 2021 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی اچھا مظاہرہ کرے گی۔

بی جے پی پارٹی میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پارٹی ریاستی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے ہم پلہ ثابت نہیں ہوسکے گی۔

پارٹی کے بارے میں کرناٹک میں بھی ایسا ہی خیال کیا جارہا ہے جہاں بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی لیکن چند دنوں بعد ہونے والے مقامی ضمنی انتخابات میں بہت خراب مظاہرہ کیا۔ ایسا ہی دہلی کے بارے میں بھی قیاس کیا جارہا ہے جہاں ارند کیجروال نے لوک سبھا انتخابات میں نہایت ہی خراب مظاہرہ کیا جبکہ ریاستی انتخابات میں اس سے اچھے مظاہرہ کی توقع کی جارہی ہے۔

بی جے پی توقع کررہی ہے کہ اگر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوں گے تو ان کی پارٹی شاندار مظاہرہ کرسکے گی۔

انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے سب سے پہلا کام ایک ملک ایک انتخابات منصوبہ کے لیے کیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ہی ساتھ منعقد ہوں گے۔

اس منصوبے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

دستور کی کئی دفعات اور عوام کی نمائندگی کرنے والی دفعہ 1951 میں بھی تبدیلی لانی پڑے گی۔

ملک کی تمام تسلیم شدہ قومی اور ریاستی پارٹیوں کو اس کے لیے راضی ہونا ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ منصوبہ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے کیونکہ وہاں کی اسمبلی کی معیاد چھ سالہ ہے نہ کہ پانچ سالہ ۔

بی جے پی کیوں اس منصوبے کو لے کر اتنی سنجیدہ ہے۔

سن 2014 اور 2019 کے انتخابات میں ثابت ہوچکا ہے کہ بی جے پی ریاستی انتخابات سے کہیں بڑھ کر اچھا مظاہرہ قومی انتخابات میں کرسکتی ہے۔

بی جے پی نے ماضی میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات جیتے ہیں لیکن 2014 اور 2019 میں اس پارٹی کا ووٹ شئیر اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں لوک سبھا انتخابات میں زیادہ بہتر تھا۔

سب سے زیادہ توقعات بہار اور مہاراشٹرا سے تھیں لیکن یہ حقیقی طور پر گنتی میں شمار نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہاں بی جے پی کا اتحاد بڑی جماعتوں سے تھا۔ ایک اور توقع ریاست تریپور میں تھی جہاں 2014 میں بی جے پی ایک چھوٹی پارٹی تھی لیکن بتدریج بڑھ رہی ہے۔

اب تک 2014 اور 2019 میں بی جے پی کا رائے دیہی کا تناسب لوک سبھا انتخابات میں زیادہ تھا جبکہ اسمبلی انتخابات میں کم تھا۔ ان میں وہ اڑیسہ ، آندھرا پردیش ، سکم اور اروناچل پردیش شامل نہیں ہیں ۔

بی جے پی کا اندازہ ہے کہ اگر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات بیک وقت منعقد ہوتے ہیں تو اس سے اسمبلی میں بھی بی جے پی کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور وہ اسمبلی میں بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں تو بیلٹ پر دونوں جگہوں پر مودی ہوں گے جن کی مخالف مشکل ہوگی

اگر 2019 کے انتخابات میں ریاستی اور قومی سطح کے انتخابات بیک وقت منعقد کئے جاتے تو بی جے پی کو 19 ریاستوں میں اکثریت حاصل ہوتی۔ تاملناڈو ، کیرالہ ، پڈو چیری ، آندھرا پردیش ، تلنگانہ ، اڈیشہ، مغربی بنگال ، میگھالیہ ، میزورم ، سکم پنجاب اور جموں و کشمیر اس سے مستثنیٰ ہوتے۔

این ڈی اے اس وقت 14 ریاستوں میں برسر اقتدار ہے جبکہ 16 میں اپوزیشن میں ہے جبکہ ریاست جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، کرناٹک اور دہلی میں بی جے پی ریاست میں اپوزیشن کی صف میں ہے لیکن لوک سبھا انتخابات میں اسے اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یو پی اے صرف دو ریاستوں ٹاملناڈو اور میگالیہ میں ہے۔

بی جے پی مغربی بنگال میں بھی کافی شیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جہاں ممتابنرجی کی حکومت ہے اس کے علاوہ بی جے پی پر امید ہے کہ وہ 2021 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی اچھا مظاہرہ کرے گی۔

بی جے پی پارٹی میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پارٹی ریاستی انتخابات میں ترنمول کانگریس کے ہم پلہ ثابت نہیں ہوسکے گی۔

پارٹی کے بارے میں کرناٹک میں بھی ایسا ہی خیال کیا جارہا ہے جہاں بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی لیکن چند دنوں بعد ہونے والے مقامی ضمنی انتخابات میں بہت خراب مظاہرہ کیا۔ ایسا ہی دہلی کے بارے میں بھی قیاس کیا جارہا ہے جہاں ارند کیجروال نے لوک سبھا انتخابات میں نہایت ہی خراب مظاہرہ کیا جبکہ ریاستی انتخابات میں اس سے اچھے مظاہرہ کی توقع کی جارہی ہے۔

بی جے پی توقع کررہی ہے کہ اگر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوں گے تو ان کی پارٹی شاندار مظاہرہ کرسکے گی۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Jun 22, 2019, 2:43 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.