ETV Bharat / bharat

ناکارہ پولیوشن کنٹرول بورڈوں کا فائدہ کیا ہے؟

author img

By

Published : Mar 24, 2020, 8:30 PM IST

شہری آلودگی کی جڑیں پولیوشن کنٹرول بورڈز کی رشوت ستانی کی وجہ سے مضبوط ہیں جب تک رشوت ستانی کی بدعت کو ختم نہیں کیا جاتا ،آلودگی اور اسکے بے شمار متاثرین کی تکلیفیں جاری رہیں گی۔

ناکارہ پولیوشن کنٹرول بورڈوں کا فائدہ کیا ہے؟
ناکارہ پولیوشن کنٹرول بورڈوں کا فائدہ کیا ہے؟

تلنگانہ ہائی کورٹ جس نے آلودگی کو قابو کرنے میں سرکاری مشینری کے لاپرواہ رجحان کی مخالفت کی ہے۔اس نے حکام پرقانون کی پاسداری کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا ہے۔حالانکہ نوٹس تو سال 2012میں اجرا کئے جاچکے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس پر ناراضگی کا اظہار کرنے میں ہائی کورٹ حق بجانب ہے۔

ہوا،مٹی اور پانی کی آلودگی کینسر اور استھما(دمہ)جیسی بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے۔ہائی کورٹ صحتِ عامہ کی ذبح خانہ جیسی حالت کو لیکر متفکر ہے، اس نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی)کے کمشنر کو کیتادان صنعتی علاقہ میں آلودگی پھیلانے والے198مراکز کے حوالے سے پھٹکار لگائی تھی۔حالانہ لوکایکت نے سنہ 2017میں آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو بند کرانے کے احکامات دئے تھے لیکن انہیں کبھی بھی نافذ نہیں کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کی تعداد345تک پہنچ گئی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے ان صنعتوں کی بجلی سپلائی کاٹ دینے اور انہیں یہاں سے بے دخل کردئے جانے کی ہدایات سامنے آئی ہیں۔

فروری2017میں عدالتِ عظمیٰ نے اپنے احاطے میں ’’ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘‘قائم کرنے میں ناکام رہنے والی صنعتوں کی بجلی اور پانی کی سپلائی کاٹ دینے کا تک حکم دیا تھا لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ سرکار ان احکامات پر عمل بھی کرتی ہے یا پھر پہلے کی طرح یہ احکامت بھی روبہ عمل آنے سے رہ جائیں گے۔حقِ اطلاعات کے تحت سامنے آچکی تازہ اطلاعات کے مطابق ’’آوٹر رنگ روڑ‘‘(او آر آر) کی حدود سے باہر منتقل کرنے کیلئے 1545صنعتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں سے 1160اب بھی شہری حدود میں کام کرتے ہوئے زہریلی ہوا پیدا کرتی آرہی ہے۔

سنٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ(سی پی سی بی)نے نیشنل گرین ٹربیونل(این جی ٹی)کی ہدایات کے مطابق ایک سال پہلے مختلف ریاستوں کی درجہ بندی(رینکنگ)جاری کی تھی جس میں تلنگانہ پولیوشن کنٹرول بورڈ کومہاراشٹراکے پولیوشن کنٹرول بورڈ کے بعد دوسرے نمبردکھایا گیا ہے۔ہائی کورٹ کی جانب سے اس درجہ بندی کو مسترد کردئے جانے کے بعد یہ بات مشکوک ہے کہ اس درجہ بندی کا کوئی اعتبارہے بھی کہ نہیں۔

تلنگانہ اور آندھراپردیش میں ہی نہیں بلکہ کئی ریاستوں میں آبگاہیں صنعتوں کی نکاسی کی وجہ سے آلودہ ہورہی ہیں۔کمپٹولر آڈیٹر جنرل(سی اے جی) کی رپورٹ میں بھی پولیوشن کنٹرول بورڈ کے قیام پر سوالات اٹھائے جاچکے ہیں کیونکہ سی اے جی پولیوشن کنٹرول بورڈز کے جھیلوں،دریاؤں اور دیگر آبگاہوں کو آلودگی سے بچانے میں ناکام رہی ہے۔حالانکہ کئی تحاقیق میں آبی آلودگی کے مضر اثرات کو انتہائی خطرناک بتایا جاچکا ہے لیکن ایک طرف آبگاہیں زہرناک ہوتی جارہی ہیں اور دوسری جانب کئی جگہوں پر اسپتال اور صنعتی کارخانے اپنا فضلہ انہی آبگاہوں میں ڈالتے ہیں۔

پولیوشن کنٹرول بورڈز ان مسائل کو دیکھنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔جس حد تک پولیوشن کنٹرول بورڈز میں علاقائی افسر بننے کیلئے رشوت لی اور دی جاتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ بورڈ کس طرح پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔شہری آلودگی کی جڑیں پولیوشن کنٹرول بورڈز کی رشوت ستانی کی وجہ سے مضبوط ہیں جب تک رشوت ستانی کی بدعت کو ختم نہیں کیا جاتا ،آلودگی اور اسکے بے شمار متاثرین کی تکلیفیں جاری رہیں گی۔لہٰذا اس مسئلے کے عملی حل کی کوششیں یہیں(پی سی بی)سے شروع ہونی چاہیئں۔

پیداواری مرحلے کے دوران آلودگی سے بچاؤ، آلودگی کے خطرے کو کم کرنے کی خاطر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شہریوں کی آگاہی میں اضافہ اور بھاری حد تک متاثرہ ماحول کو متوازن بنانے کے ہدف کو سی پی سی بی نے مقرر کیا ہے ۔پی سی بی کے کئی کاموں میں سے ایک مختلف قانونی دفعات کا جائزہ لیکر مفصل سالانہ رپورٹ پیش کرنا ہے۔اگر سبھی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے انجام دی جاتی رہی ہوتی ت صورتحال اتنی بدتر نہیں ہوتی۔ریاستی ہائی کورٹ نے پچھلی بار کہا ہے کہ پی سی بی ایک بے کار ادارہ ہے، اسکے باوجود بھی پی سی بی کی کارکردگی کئی برسوں میں رتی برابر بھی بہتر نہیں ہوئی ہے یہاں تک کہ ہائی کورٹ کو پھر اسی وجہ سے مداخلت کرنا پڑا ہے۔

جمود کا شکار یہ کنٹرول بورڈ وقفے وقفے سے عدالتوں کی جانب سے مداخلت کیے جانے کے باوجود بھی اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرتی ہے اور جو ملک کیلئے ایک شدید خطرہ بنا ہوا ہے۔چار سال ہوگئے ہیں جب مودی سرکار نے مختلف صنعتوں میں آلودگی کی پیمائش کرنے کے نئے پیمانے سامنے لائے تھے۔ان پیمانوں کے مطابق وہ صنعتیں جنہیں درمیانہ درجے کی آلودگی پھیلانے والی کہا گیا ہے وہ ’’ویسٹ منیجمنٹ سسٹم‘‘کے قیام کی پابند ہیں۔

موجودہ صورتحال لاپرواہ پولیوشن کنٹرول بورڈز کو ختم کرنے کی ضرورت کواجاگر کرتی ہے۔سی پی سی بی اور ریاستوں کے پی سی بی میں ماہرینِ ماحولیات، قانون ساز اور دیگر متعلقہ ماہرین کی تقرری کرکے ان اداروں کو ہوا ،پانی صفائی اور کچڑے کو ٹھکانے لگانے کے معیار کیلئے جوابدہ بنایا جاسکتا ہے۔یہ بات سمجھی جانی چاہیئے کہ جب تک متعلقہ ضابطہ کار تنظیموں سے مناسب کام نہیں لیا جائے اور یہ تنظیمیں سرگرم نہ ہوجاتی تب تک عوامی صحت کا معیار بلند نہیں کیا جاسکے گا۔

تلنگانہ ہائی کورٹ جس نے آلودگی کو قابو کرنے میں سرکاری مشینری کے لاپرواہ رجحان کی مخالفت کی ہے۔اس نے حکام پرقانون کی پاسداری کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا ہے۔حالانکہ نوٹس تو سال 2012میں اجرا کئے جاچکے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس پر ناراضگی کا اظہار کرنے میں ہائی کورٹ حق بجانب ہے۔

ہوا،مٹی اور پانی کی آلودگی کینسر اور استھما(دمہ)جیسی بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے۔ہائی کورٹ صحتِ عامہ کی ذبح خانہ جیسی حالت کو لیکر متفکر ہے، اس نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی)کے کمشنر کو کیتادان صنعتی علاقہ میں آلودگی پھیلانے والے198مراکز کے حوالے سے پھٹکار لگائی تھی۔حالانہ لوکایکت نے سنہ 2017میں آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو بند کرانے کے احکامات دئے تھے لیکن انہیں کبھی بھی نافذ نہیں کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کی تعداد345تک پہنچ گئی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے ان صنعتوں کی بجلی سپلائی کاٹ دینے اور انہیں یہاں سے بے دخل کردئے جانے کی ہدایات سامنے آئی ہیں۔

فروری2017میں عدالتِ عظمیٰ نے اپنے احاطے میں ’’ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘‘قائم کرنے میں ناکام رہنے والی صنعتوں کی بجلی اور پانی کی سپلائی کاٹ دینے کا تک حکم دیا تھا لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ سرکار ان احکامات پر عمل بھی کرتی ہے یا پھر پہلے کی طرح یہ احکامت بھی روبہ عمل آنے سے رہ جائیں گے۔حقِ اطلاعات کے تحت سامنے آچکی تازہ اطلاعات کے مطابق ’’آوٹر رنگ روڑ‘‘(او آر آر) کی حدود سے باہر منتقل کرنے کیلئے 1545صنعتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں سے 1160اب بھی شہری حدود میں کام کرتے ہوئے زہریلی ہوا پیدا کرتی آرہی ہے۔

سنٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ(سی پی سی بی)نے نیشنل گرین ٹربیونل(این جی ٹی)کی ہدایات کے مطابق ایک سال پہلے مختلف ریاستوں کی درجہ بندی(رینکنگ)جاری کی تھی جس میں تلنگانہ پولیوشن کنٹرول بورڈ کومہاراشٹراکے پولیوشن کنٹرول بورڈ کے بعد دوسرے نمبردکھایا گیا ہے۔ہائی کورٹ کی جانب سے اس درجہ بندی کو مسترد کردئے جانے کے بعد یہ بات مشکوک ہے کہ اس درجہ بندی کا کوئی اعتبارہے بھی کہ نہیں۔

تلنگانہ اور آندھراپردیش میں ہی نہیں بلکہ کئی ریاستوں میں آبگاہیں صنعتوں کی نکاسی کی وجہ سے آلودہ ہورہی ہیں۔کمپٹولر آڈیٹر جنرل(سی اے جی) کی رپورٹ میں بھی پولیوشن کنٹرول بورڈ کے قیام پر سوالات اٹھائے جاچکے ہیں کیونکہ سی اے جی پولیوشن کنٹرول بورڈز کے جھیلوں،دریاؤں اور دیگر آبگاہوں کو آلودگی سے بچانے میں ناکام رہی ہے۔حالانکہ کئی تحاقیق میں آبی آلودگی کے مضر اثرات کو انتہائی خطرناک بتایا جاچکا ہے لیکن ایک طرف آبگاہیں زہرناک ہوتی جارہی ہیں اور دوسری جانب کئی جگہوں پر اسپتال اور صنعتی کارخانے اپنا فضلہ انہی آبگاہوں میں ڈالتے ہیں۔

پولیوشن کنٹرول بورڈز ان مسائل کو دیکھنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔جس حد تک پولیوشن کنٹرول بورڈز میں علاقائی افسر بننے کیلئے رشوت لی اور دی جاتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ بورڈ کس طرح پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔شہری آلودگی کی جڑیں پولیوشن کنٹرول بورڈز کی رشوت ستانی کی وجہ سے مضبوط ہیں جب تک رشوت ستانی کی بدعت کو ختم نہیں کیا جاتا ،آلودگی اور اسکے بے شمار متاثرین کی تکلیفیں جاری رہیں گی۔لہٰذا اس مسئلے کے عملی حل کی کوششیں یہیں(پی سی بی)سے شروع ہونی چاہیئں۔

پیداواری مرحلے کے دوران آلودگی سے بچاؤ، آلودگی کے خطرے کو کم کرنے کی خاطر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شہریوں کی آگاہی میں اضافہ اور بھاری حد تک متاثرہ ماحول کو متوازن بنانے کے ہدف کو سی پی سی بی نے مقرر کیا ہے ۔پی سی بی کے کئی کاموں میں سے ایک مختلف قانونی دفعات کا جائزہ لیکر مفصل سالانہ رپورٹ پیش کرنا ہے۔اگر سبھی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے انجام دی جاتی رہی ہوتی ت صورتحال اتنی بدتر نہیں ہوتی۔ریاستی ہائی کورٹ نے پچھلی بار کہا ہے کہ پی سی بی ایک بے کار ادارہ ہے، اسکے باوجود بھی پی سی بی کی کارکردگی کئی برسوں میں رتی برابر بھی بہتر نہیں ہوئی ہے یہاں تک کہ ہائی کورٹ کو پھر اسی وجہ سے مداخلت کرنا پڑا ہے۔

جمود کا شکار یہ کنٹرول بورڈ وقفے وقفے سے عدالتوں کی جانب سے مداخلت کیے جانے کے باوجود بھی اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرتی ہے اور جو ملک کیلئے ایک شدید خطرہ بنا ہوا ہے۔چار سال ہوگئے ہیں جب مودی سرکار نے مختلف صنعتوں میں آلودگی کی پیمائش کرنے کے نئے پیمانے سامنے لائے تھے۔ان پیمانوں کے مطابق وہ صنعتیں جنہیں درمیانہ درجے کی آلودگی پھیلانے والی کہا گیا ہے وہ ’’ویسٹ منیجمنٹ سسٹم‘‘کے قیام کی پابند ہیں۔

موجودہ صورتحال لاپرواہ پولیوشن کنٹرول بورڈز کو ختم کرنے کی ضرورت کواجاگر کرتی ہے۔سی پی سی بی اور ریاستوں کے پی سی بی میں ماہرینِ ماحولیات، قانون ساز اور دیگر متعلقہ ماہرین کی تقرری کرکے ان اداروں کو ہوا ،پانی صفائی اور کچڑے کو ٹھکانے لگانے کے معیار کیلئے جوابدہ بنایا جاسکتا ہے۔یہ بات سمجھی جانی چاہیئے کہ جب تک متعلقہ ضابطہ کار تنظیموں سے مناسب کام نہیں لیا جائے اور یہ تنظیمیں سرگرم نہ ہوجاتی تب تک عوامی صحت کا معیار بلند نہیں کیا جاسکے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.