ماہرین کے مطابق بھارت بھی کورونا وائرس کا بڑا شکار ہو سکتا ہے۔ بھارت میں اب تک کورونا وائرس کے 396 کیسز سامنے آ چکے ہیں اور سات اموات ہو چکی ہیں۔
بھارت کے سینٹر فار ڈیزیز ڈائی نیمکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامانن لکشمی ناراین نے بتایا کہ' بھارت میں کورونا وائرس کے معاملے بہت تیزی سے بڑھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ بھارت میں اس کا اثر باقی دنیا سے کم ہو گا۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کورونا وائرس کا اگلا بڑا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر رامانن نے بتایا کہ'ہو سکتا ہے باقی ممالک کے مقابلے میں ہم تھوڑا پیچھے چل رہے ہوں لیکن اسپین اور چین میں جیسے حالات رہے ہیں جتنی بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ اس وائرس کی زد میں آئے ہیں، ویسے ہی حالات بھارت میں بھی پیدا ہوں گے اور چند ہفتوں میں ہمیں کورونا وائرس کی سونامی کے لیے تیار رہنا چاہیے'۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ جس وقت دنیا بھر کے ممالک میں کورونا وائرس کی بڑی تعداد میں کیسز سامنے آ رہے ہیں، بھارت میں فی الحال یہ تعداد اتنی کم کیوں ہے؟
ڈاکٹر رامانن نے بتایا کہ اگر بھارت میں زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کیے جاتے تو ممکنہ طور پر اور زیادہ کیسز سامنے آتے لیکن بھارت میں کورونا وائرس کے لیے بہت کم ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جب ٹیسٹ بڑھیں گے تو مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ تعداد اگلے دو تین دنوں میں ہزار سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ بھارت میں ایسے جراثیم کا پھیلنا بہت آسان ہے۔ اس کی وجہ یہاں کی گھنی آبادی ہے۔ ایسا ہی چین کے ساتھ بھی ہوا'۔
ڈاکٹر رامانن نے خدشہ ظاہر کیا کہ کورونا وائرس کی کمیونٹی ٹرانسمیشن اب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہر جانب ایک مریض دو نئے کیسز بڑھا رہا ہے۔
کمیونیٹی ٹرانسمیشن کسی مرض کے پھیلنے کا تیسرا اور خطرناک مرحلہ ہوتا ہے۔ کمیونیٹی ٹرانسمیشن تب ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی متاثرہ شخص کے رابطے میں آئے بغیر یا کسی متاثرہ ملک کا سفر کیے بغیر ہی اس مرض میں مبتلا ہو جائے۔
بھارت میں اب تک انھی لوگوں کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے جو بیرون ملک سے آئے تھے یا ایسے کسی شخص کے رابطے میں رہے ہوں۔
لیکن اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کے رابطے میں آ رہا ہے اور اس کے ذریعہ کورونا وائرس دوسروں تک بھی پھیل گیا ہے تو صورتحال اور خراب ہو جائے گی۔
ڈاکٹر رامانن نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ میں پچاس سے ساٹھ فیصد افراد اس وائرس سے متاثر ہوں گے۔
ان کا خیال ہے کہ بھارت میں کم از کم بیس فیصد آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو گی لیکن یہاں کی آبادی کے اعتبار سے یہ تعداد کم نہیں ہے۔ بیس فیصد آبادی کا مطلب ہے کہ تیس کروڑ افراد۔
ڈاکٹر رامانن نے بتایا کہ ہر پانچ میں سے ایک شخص وائرس سے بری طرح متاثر ہو گا یعنی چالیس سے پچاس فیصد افراد سنجیدہ حالت میں ہوں گےاور انھیں ہسپتال میں داخل کروانے کی ضرورت پڑے گی۔
بھارت میں اب تک ان لوگوں کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے جو بیرون ملک سے آئے تھے یا ایسے کسی شخص کے رابطے میں رہے ہوں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں صحت کی سہولیات کیا ایسی ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کا خیال رکھ سکیں؟ خاص طور پر دیہی علاقوں میں ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے۔
مزید پڑھیں:جرمن چانسلر قرنطینہ میں داخل
ڈاکٹر رامانن نے کہا 'ہمارے پاس حالات پر قابو پانے کے لیے تین ہفتے کا وقت ہے۔ سب کچھ اسی دوران کرنا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے یں جہاں سے سامنے سونامی کو آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم وقت رہتے خبردار نہیں ہوئے تو سونامی میں ختم ہو جائیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ' ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ایسی چیزیں ایک بار سامنے آتی ہیں اور ایک ہی بار میں سب کچھ تباہ کر کے چلی جاتی ہیں۔ حکومتوں کو بھی اس کی آہٹ کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اس وبا سے خود کو محفوظ رکھنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا'۔