ETV Bharat / bharat

'لائن آف ایکچول کنٹرول پر صورتحال سنگین'

لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا نے چین - بھارت سرحد پر پیدا ہوئی کشیدگی کے بارے میں کہا کہ ایک کمانڈنگ آفیسر سمیت بیس بھارتی سپاہیوں کی ہلاکت کے واقعہ کے بعد لداخ میں لائن آف ایکچیول کنٹرول کی سنگین صورتحال کی تپش ملک بھر میں محسوس کی جارہی ہے۔ غالباً یہ 1962ء کی جنگ کے بعد بھارت اور چین کے درمیان پیدا ہوا سب سے بڑا بحران ہے اور بھارت۔چین تعلقات پر اس واقعہ کے دُور رس اثرات مرتب ہونگے۔

لائن آف ایکچول کنٹرول پر صورتحال سنگین
لائن آف ایکچول کنٹرول پر صورتحال سنگین
author img

By

Published : Jun 22, 2020, 5:35 PM IST

عوام الناس اس مسئلے سے متعلق بنیادی صورتحال کے بارے میں حقائق جاننے کے خواہاں ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس خطے کی جغرافیائی صورتحال کیا ہے اور دونوں ملکوں کی افواج کا اس طرح سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوجانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ میں اس ساری صورتحال کی صحیح تناطر میں وضاحت کرنے کوشش کروں گا۔

لائن آف ایکچیول کنٹرول

سنہ 1962ء کی جنگ کے دوران چینی فوج نے مغربی لداخ میں 38 ہزار مربع کلو میٹر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ چین کے اس کے نتیجے میں ایک نئی سرحد معرض وجود آگئی، جسے لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پکارا جاتا ہے۔ اس نئی سرحد کو نہ ہی نقشے پر ظاہر کیا گیا اور نہ ہی زمین پر اس کی نشاندہی کی گئی۔ اس صورتحال کی وجہ سے اس لائن آف ایکچول کنٹرول کی حد بندی سے متعلق بعض علاقوں میں دونوں ملکوں کے متضاد اور اپنے اپنے نظریات ہیں۔

دونوں بھارت اور چین کی افواج اپنے اپنے نظریات کی حدود تک لائن آف ایکچیول کنٹرول کی پٹرولنگ کرتے رہے ہیں۔ جن علاقوں میں دونوں حدود سے متعلق دونوں ممالک کی افواج کے نظریات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، اُن علاقوں میں اکثر پیٹرولنگ کے دوران دونوں ممالک کی افواج کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے دو نوں ملکوں کی افواج کے آمنے سامنے آنے کے بعد امن بنائے رکھنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدے اور قواعد طے کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2013ء کے ’’بارڈر ڈیفنس کواپریشن ایگریمنٹ‘‘ کی شق آٹھ میں بھی اس طرح کے قواعد و ضوابط طے کئے گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے، ’’دونوں اطراف اس بات پر رضامند ہیں کہ اگر دونوں کی فوجیں پیٹرولنگ کرتے ہوئے لائن آف ایکچیول کنٹرول کے کسی ایسے علاقے میں آمنے سامنے آجائیں جس کی حدود کے بارے میں دونوں کے نظریات متضاد ہوں تو اس صورتحال میں دونوں افواج زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ کوئی بھی اُکسا دینے والی حرکت نہیں کریں گے۔ نہ ہی طاقت کا استعمال کریں گی اور نہ ہی ایک دوسرے کو دھمکانے کی کوشش کریں گے۔ دونوں فوجیں کسی مسلح تصادم یا فائرنگ کے تبادلے سے گریز کریں گے۔‘‘

دونوں ملکوں کی جانب سے اس طرح کے قواعد و ضوابط کی مکمل پاسداری کے نتیجے میں سنہ 1975ء تک لائن آف ایکچیول کنٹرول پر امن بنائے رکھنے میں مدد ملی ہے۔ سنہ 1975ء میں ایک سرحدی تنازعے میں چار بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ اس سال مئی کے پہلے ہفتے میں چینیوں کی دراندازی کے بعد پر امن صورتحال اچانک تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔

مشرقی لداخ کے جغرافیائی خدوخال

لداخ کو بلند و بالا ریگستان پکارا جاتا ہے۔ مشرقی لداخ تبت مرتفع (پلیٹو) سے منسلک ہے۔ پینگانگ جھیل اور گلوان وادی سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہیں۔ جبکہ ہاٹ سپرنگ علاقہ ساڑھے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ وہ تین علاقے ہیں، جن میں فی الوقت بھارت اور چین کی افواج کا آمنا سامنا ہوگیا ہے۔

سب سے زیادہ تناؤ پنگانگ جھیل اور گلوان کے علاقوں میں پیدا ہوگیا ہے۔ پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے پر دونوں بھارت اور چین کی افواج کا حد بندی سے متعلق اپنا اپنا اور متضاد نظریہ ہے۔ ماضی میں دونوں افواج اپنے اپنے نظریہ کے مطابق لائن آف ایکچیول کنٹرول کے حدود تک پیٹرولنگ کرتے رہے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول فنگر چار تک ہے جبکہ بھارتی نظریے کے مطابق لائن آف ایکچول کنٹرول کی حدود فنگر آٹھ تک ہے۔ اس وقت چین نے عملی طور پر اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی فوج کو اُن حدود تک جانے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے، جنہیں وہ اپنے طور سے لائن آف ایکچیول کنٹرول سمجھتے ہیں۔

گلوان وادی لائن آف کنٹرول پر اُس بھارتی سڑک، جو دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) یعنی دُنیا کے بلند ترین ہوائی پٹی تک جاتی سے لگ بھگ چھ کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ واحد سڑک ہے، جس کی وساطت سے سال بھر یعنی ہر موسم میں دولت بیگ اور اسکے گرد نواح کے علاقوں میں تعینات فوج کو سپلائی فراہم کی جاسکتی ہے۔ یہ سڑک دربگ سے شروع ہوکر 225 کلو میٹر دور دولت بیگ اولڈی تک جاتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سال 2000ء میں شروع کی گئی تھی لیکن اس سڑک کا فوج استعمال نہیں کرپارہی تھی کیونکہ دریائے شیوک پر پُل موجود نہیں تھا۔ اس پُل کی تعمیر سال 2019ء میں مکمل ہوگئی اور اس کا افتتاح وزیر دفاع نے کیا۔ یہ سڑک اب فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل بن گئی ہے کیونکہ اس کے ذریعے لداخ کے شمالی علاقوں تک فوجی ساز و سامان اور سپاہیوں کو تیزی سے پہچایا جاسکتا ہے۔

اگر چینی فوج گلوان وادی سے ہوتے ہوئے لائن آف ایکچول کنٹرول کے اِس پار داخل ہونگے تو وہ اس سڑک کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ اس طرح سے وہ اس سڑک کو کاٹ سکتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے چین کی جانب سے ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوششوں کی شدید مزاحمت کی ہے۔ اسی طرح کی ایک مزاحمت کے نتیجے میں پندرہ جون کا واقعہ رونما ہوا، جس میں ہمارے بیس سپاہی شہید ہوگئے۔

فی الوقت صورتحال کس قدر سنگین ہے؟

ماضی میں (چینی فوج کی) دراندازی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان کے نتیجے میں سال 2013ء میں دیپسنگ، سال 2014ء میں چمبر اور سال 2017ء میں ڈوکلام میں دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ تاہم یہ سبھی مقامی نوعیت کے واقعات تھے اور انہیں پر امن طور سے بغیر کسی تشدد کے حل کیا گیا۔ لیکن چینیوں کا تازہ اقدام مکمل طور پر مختلف نوعیت کا ہے۔ چینی فوجیوں کی جانب سے لائن آف ایکچیول کنٹرول کے مختلف خطوں میں بڑی تعداد میں جمع ہوجانے کے اقدامات کی منظوری یقینی طور پر چین کی حکومت نے اعلیٰ سطح پر دی ہوگی۔ چینیوں نے جس طرح کے تشدد کا مظاہرہ کیا، اُس کی مثال بھی ماضی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ فی الوقت تمام طے شدہ قواعد و ضوابط معطل نظر آرہے ہیں۔

چینیوں کی کارروائی کے بعد اب اُن تمام قواعد و ضوابط کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے، جو لائن آف ایکچیول کنٹرول سے متعلق طے پائے گئے تھے۔ ہمیں مزید جارحانہ رویہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس صورتحال کے بارڈر منیجمنٹ پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ ہمیں لائن آف ایکچول کنٹرول پر مستقبل قریب میں مزید گرماہٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

بھارت اور چین کے تعلقات کی نوعیت اور فطرت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اس حوالے سے مزید پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے آثار پہلے سے ہی عیاں ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت وسیع پیمانے پر چین مخالف جذبات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ صورتحال کو کیسے ٹھیک کیا جاتا، ہمارے ملک کے شہری چین کی جانب سے فوجی قوت کے سہارے بھارت کو دھمکانے کے عمل کو نہیں بھولیں گے۔

عوام الناس اس مسئلے سے متعلق بنیادی صورتحال کے بارے میں حقائق جاننے کے خواہاں ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس خطے کی جغرافیائی صورتحال کیا ہے اور دونوں ملکوں کی افواج کا اس طرح سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوجانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ میں اس ساری صورتحال کی صحیح تناطر میں وضاحت کرنے کوشش کروں گا۔

لائن آف ایکچیول کنٹرول

سنہ 1962ء کی جنگ کے دوران چینی فوج نے مغربی لداخ میں 38 ہزار مربع کلو میٹر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ چین کے اس کے نتیجے میں ایک نئی سرحد معرض وجود آگئی، جسے لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پکارا جاتا ہے۔ اس نئی سرحد کو نہ ہی نقشے پر ظاہر کیا گیا اور نہ ہی زمین پر اس کی نشاندہی کی گئی۔ اس صورتحال کی وجہ سے اس لائن آف ایکچول کنٹرول کی حد بندی سے متعلق بعض علاقوں میں دونوں ملکوں کے متضاد اور اپنے اپنے نظریات ہیں۔

دونوں بھارت اور چین کی افواج اپنے اپنے نظریات کی حدود تک لائن آف ایکچیول کنٹرول کی پٹرولنگ کرتے رہے ہیں۔ جن علاقوں میں دونوں حدود سے متعلق دونوں ممالک کی افواج کے نظریات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، اُن علاقوں میں اکثر پیٹرولنگ کے دوران دونوں ممالک کی افواج کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے دو نوں ملکوں کی افواج کے آمنے سامنے آنے کے بعد امن بنائے رکھنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدے اور قواعد طے کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2013ء کے ’’بارڈر ڈیفنس کواپریشن ایگریمنٹ‘‘ کی شق آٹھ میں بھی اس طرح کے قواعد و ضوابط طے کئے گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے، ’’دونوں اطراف اس بات پر رضامند ہیں کہ اگر دونوں کی فوجیں پیٹرولنگ کرتے ہوئے لائن آف ایکچیول کنٹرول کے کسی ایسے علاقے میں آمنے سامنے آجائیں جس کی حدود کے بارے میں دونوں کے نظریات متضاد ہوں تو اس صورتحال میں دونوں افواج زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ کوئی بھی اُکسا دینے والی حرکت نہیں کریں گے۔ نہ ہی طاقت کا استعمال کریں گی اور نہ ہی ایک دوسرے کو دھمکانے کی کوشش کریں گے۔ دونوں فوجیں کسی مسلح تصادم یا فائرنگ کے تبادلے سے گریز کریں گے۔‘‘

دونوں ملکوں کی جانب سے اس طرح کے قواعد و ضوابط کی مکمل پاسداری کے نتیجے میں سنہ 1975ء تک لائن آف ایکچیول کنٹرول پر امن بنائے رکھنے میں مدد ملی ہے۔ سنہ 1975ء میں ایک سرحدی تنازعے میں چار بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ اس سال مئی کے پہلے ہفتے میں چینیوں کی دراندازی کے بعد پر امن صورتحال اچانک تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔

مشرقی لداخ کے جغرافیائی خدوخال

لداخ کو بلند و بالا ریگستان پکارا جاتا ہے۔ مشرقی لداخ تبت مرتفع (پلیٹو) سے منسلک ہے۔ پینگانگ جھیل اور گلوان وادی سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہیں۔ جبکہ ہاٹ سپرنگ علاقہ ساڑھے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ وہ تین علاقے ہیں، جن میں فی الوقت بھارت اور چین کی افواج کا آمنا سامنا ہوگیا ہے۔

سب سے زیادہ تناؤ پنگانگ جھیل اور گلوان کے علاقوں میں پیدا ہوگیا ہے۔ پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے پر دونوں بھارت اور چین کی افواج کا حد بندی سے متعلق اپنا اپنا اور متضاد نظریہ ہے۔ ماضی میں دونوں افواج اپنے اپنے نظریہ کے مطابق لائن آف ایکچیول کنٹرول کے حدود تک پیٹرولنگ کرتے رہے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول فنگر چار تک ہے جبکہ بھارتی نظریے کے مطابق لائن آف ایکچول کنٹرول کی حدود فنگر آٹھ تک ہے۔ اس وقت چین نے عملی طور پر اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی فوج کو اُن حدود تک جانے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے، جنہیں وہ اپنے طور سے لائن آف ایکچیول کنٹرول سمجھتے ہیں۔

گلوان وادی لائن آف کنٹرول پر اُس بھارتی سڑک، جو دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) یعنی دُنیا کے بلند ترین ہوائی پٹی تک جاتی سے لگ بھگ چھ کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ واحد سڑک ہے، جس کی وساطت سے سال بھر یعنی ہر موسم میں دولت بیگ اور اسکے گرد نواح کے علاقوں میں تعینات فوج کو سپلائی فراہم کی جاسکتی ہے۔ یہ سڑک دربگ سے شروع ہوکر 225 کلو میٹر دور دولت بیگ اولڈی تک جاتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سال 2000ء میں شروع کی گئی تھی لیکن اس سڑک کا فوج استعمال نہیں کرپارہی تھی کیونکہ دریائے شیوک پر پُل موجود نہیں تھا۔ اس پُل کی تعمیر سال 2019ء میں مکمل ہوگئی اور اس کا افتتاح وزیر دفاع نے کیا۔ یہ سڑک اب فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل بن گئی ہے کیونکہ اس کے ذریعے لداخ کے شمالی علاقوں تک فوجی ساز و سامان اور سپاہیوں کو تیزی سے پہچایا جاسکتا ہے۔

اگر چینی فوج گلوان وادی سے ہوتے ہوئے لائن آف ایکچول کنٹرول کے اِس پار داخل ہونگے تو وہ اس سڑک کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ اس طرح سے وہ اس سڑک کو کاٹ سکتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے چین کی جانب سے ہمارے علاقے میں گھسنے کی کوششوں کی شدید مزاحمت کی ہے۔ اسی طرح کی ایک مزاحمت کے نتیجے میں پندرہ جون کا واقعہ رونما ہوا، جس میں ہمارے بیس سپاہی شہید ہوگئے۔

فی الوقت صورتحال کس قدر سنگین ہے؟

ماضی میں (چینی فوج کی) دراندازی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان کے نتیجے میں سال 2013ء میں دیپسنگ، سال 2014ء میں چمبر اور سال 2017ء میں ڈوکلام میں دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ تاہم یہ سبھی مقامی نوعیت کے واقعات تھے اور انہیں پر امن طور سے بغیر کسی تشدد کے حل کیا گیا۔ لیکن چینیوں کا تازہ اقدام مکمل طور پر مختلف نوعیت کا ہے۔ چینی فوجیوں کی جانب سے لائن آف ایکچیول کنٹرول کے مختلف خطوں میں بڑی تعداد میں جمع ہوجانے کے اقدامات کی منظوری یقینی طور پر چین کی حکومت نے اعلیٰ سطح پر دی ہوگی۔ چینیوں نے جس طرح کے تشدد کا مظاہرہ کیا، اُس کی مثال بھی ماضی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ فی الوقت تمام طے شدہ قواعد و ضوابط معطل نظر آرہے ہیں۔

چینیوں کی کارروائی کے بعد اب اُن تمام قواعد و ضوابط کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے، جو لائن آف ایکچیول کنٹرول سے متعلق طے پائے گئے تھے۔ ہمیں مزید جارحانہ رویہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس صورتحال کے بارڈر منیجمنٹ پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ ہمیں لائن آف ایکچول کنٹرول پر مستقبل قریب میں مزید گرماہٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

بھارت اور چین کے تعلقات کی نوعیت اور فطرت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اس حوالے سے مزید پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے آثار پہلے سے ہی عیاں ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت وسیع پیمانے پر چین مخالف جذبات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ صورتحال کو کیسے ٹھیک کیا جاتا، ہمارے ملک کے شہری چین کی جانب سے فوجی قوت کے سہارے بھارت کو دھمکانے کے عمل کو نہیں بھولیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.