امریکی شہر ہیوسٹن میں آئندہ اتوار کو ٹرمپ۔مودی ملاقات سے قبل کشیدہ بھارت۔امریکہ تجارتی تعلقات میں کامیابی سابقہ کچھ برسوں کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دیتی ہے، لیکن تعطل کو ختم کرنے کے لیے 'ایک ہاتھ دے اور ایک ہاتھ لے' کی حکمت عملی کو توڑنی ہوگی۔ اگر دونوں ممالک اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مفادات چاہیں تو ان کے درمیان کوئی معاہدہ کرنا مشکل ہوگا۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہتری کے امکانات کو اس وقت ہوا ملی، جب بھارتی خبررساں ادارے نے رپورٹ کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیلی فورنیا سے واپسی کے دوران نامہ نگاروں سے کہا تھا کہ وزیراعظم مودی کی ہیوسٹن میں ہونے والی ریلی میں ان کی طرف سے کوئی اعلان متوقع ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ ہیوسٹن میں ہونے والے ہاؤڈی مودی پروگرام میں امریکی صدر ٹرمپ بھی شامل ہوں گے۔ مودی 21 سے 27 ستمبر تک نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔ دونوں رہنما وہاں دوسرے دور کی ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔
ہیوسٹن میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اتوار کے روز ہونے والی ملاقات کے دوران کسی بھی اعلان کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے، لیکن امریکی صدر کی طرف سے بھارت کے ساتھ ہونے والے 30 ڈالر نقصان کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ امریکہ میں بھارت کے برآمدات 2017۔2018 میں 48 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، جو 27 بلین ڈالر کے تجارتی شراکت کی درآمد سے کہیں آگے ہے۔
اس سے قبل پیر کے روز مرکزی وزیر برائے تجارت پیوش گوئل نے اعلان کیا تھا کہ دونوں فریق تجارتی قرارداد کو حتمی شکل دے رہے ہیں، حالانکہ مودی۔ٹرمپ ملاقات کے دوران اس کا اعلان کیا جائے گا یا نہیں، اس کی تصدیق انھوں نے نہیں کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقامی نوکریوں اور تجارت کے لیے گھریلو امریکی سیاست اور ملکی سلامتی کے امور پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے امریکی اشیا پر بھارتی حکومت کی طرف سے اضافی ٹیکس لگانے کی شکایت عوام طور پر کی ہے۔ ایک بار ٹرمپ نے بھارت کو 'ٹیریف کنگ' بھی بتایا۔
رواں برس جون میں دونوں ممالک کے درمیان اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو گیا، جب ٹرمپ انتظامیہ نے جی ایس پی پروگرام کے تحت بھارتی برآمدات کو ملنے والے فائدے کو ختم کر دیا۔
امریکہ کی طرف سے جی ایس پی کا درجہ تجارتی ایکٹ 1974 کے تحت دیا جاتا ہے جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی نمو کی بہتری لانا ہوتا ہے اور اس پروگرام پر یکم جنوری 1976 سے عمل کیا جارہا ہے۔
امریکی جی ایس پی پروگرام کے تحت 129 نامزد ممالک کے 4800 اشیا کو امریکی بازار میں محصول سے آزادی دی گئی ہے۔
جی ایس پی پروگرام کے تحت کاروباری ترجیجی فوائد سے محروم ہونے سے قبل بھارت اس پروگرام کے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک تھا۔
اب مودی۔ٹرمپ ملاقات کے دوران بھارت کی کوشش ہو گی کہ وہ امریکہ میں بھارتی برآمدات کے لیے جی ایس پی کے تحت ملنے والے فوائد کی بحالی ہوگی۔
جہاں تک امریکہ کی بات ہے، کم از کم توقع تو یہ ہے کہ بادام اور سیب سمیت 28 امریکی اشیا پر جی ایس پی فوائد کے خاتمے کے جواب میں بھارت نے عملی طور پر عائد نرخوں میں اضافے کو واپس لے لیا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے ان کے اضافی محصول کے خاتمے کے لیے عوامی مطالبہ جاری کیا ہے۔
اس سے قبل جون 2018 میں واشنگٹن کی طرف سے اسٹیل پر 25 فیصد اضافی ٹیکس اور المونیم پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیے جانے پر نئی دہلی نے غیرمنصفانہ تجارتی لین دین کا الزام عائد کیا تھا اور 235 ملین امریکی درآمدات پر انتقامی محصولات کی دھمکی دی تھی۔
یہاں تک کہ جب دونوں فریقوں نے سرکاری سطح پر بات چیت کے ذریعے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی، اس کی جھلک رواں برس اگست کے آخر میں نظر آئی، جب وزیراعظم مودی فرانس کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی شہر بیارٹزمیں جی۔7 چوٹی کانفرنس کے موقع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران نئی دہلی نے امریکہ سے تیل سمیت درآمدات میں تیزی لانے کا منصوبہ بنایا ہے اور پائپ لائن میں 4 بلین ڈالر کی درآمد پہلے ہی موجود تھی۔
لیکن امریکی صدر صرف محصولات میں کمی مطمئن ہوجائے، اس کا امکان نہیں ہے، انھیں اور بھی امیدیں ہیں۔ طویل تنازعہ کے مرکز میں امریکی اور ڈیری صنعتوں کے لیے 'مساوی اور معقول مارکیٹ کی رسائی کا حصول بھی شامل ہے۔
اگرچہ ڈیری صنعتوں کے مطالبات مودی کے لیے بہت ہی بڑے اور زیادہ تر غیر منظم بھارتی ڈیری سیکٹر کو تحفظ فراہم کرنے کی سیاسی اور معاشی ضرورت کے پیش نظر، مشکل ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ نئی دہلی درآمد شدہ ادویات اور میڈیکل کے خلاف پرائس کنٹرول اقدامات کا استعمال کرتی ہے، جو فی الحال کافی بڑھ گیا ہے۔
فروری 2016 میں کارڈیک اسٹینٹس پرائس کنٹرول میں رکھے گئے تھے اور گھٹنے کی پیوند کاری نے اگست 2017 میں اسی طرح کی کارروائی کو راغب کیا تھا، جس کے بعد بہت سارے طبی آلات کے تجارتی مارجن کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
امریکی مینوفیکچرز کا شکایت کرنا حق بجانب ہے کہ ایسا کرنے میں نئی دہلی نے گھریلو کھلاڑیوں کے لیے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔
گھریلو کمپنیوں کے لیے، تقسیم کاروں کے لیے قیمت پر غور کیا جاتا ہے جبکہ عالمی مینوفیکچررز کے معاملے میں تجوید کردہ بنیاد درآمدات کی لینڈنگ لاگت ہوتی ہے۔
امریکی میڈیکل ڈیوائس انڈسٹری چاہتی ہے کہ کارڈیک اسٹینٹوں اور گھٹنے کے امپلانٹس پر قیمتوں پر قابو پانے کے عمل کو واپس لے لیا جائے۔
نئی دہلی نے قیمتوں پر قابو پانے کے ذریعے غیر مناسب قیمتوں کے خلاف کارروائی کرنے کو ترجیح دی ہے جب بالکل اسی طرح کے نتائج دیگر قسم کے پالیسی متبادلوں کے ذریعے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
وزیراعظم مودی ان قیمتوں کو گھریلو اور غیر ملکی مینوفیکچررز پر یکساں طور پر لاگو کرتے ہوئے مناسب تجارتی مارجن کے اقدامات سے پرائس کنٹرول کو تبدیل کرکے آسانی سے ان خدشات کو دور کرسکتے ہیں۔
دوطرفہ تجارتی تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ بھارت کی ڈیٹا لوکلائزیشن پالیسیاں ہیں۔ اس پر بھی مودی کے نرمی اختیار کرنے کا امکان نہیں ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے کارڈ کے ذریعے ادائیگی کی خدمات جیسے ویزا اور ماسٹر کارڈ کے ساتھ ساتھ پیئٹی ایم، واٹس ایپ اور گوگل جیسی کمپنیوں کی پیشہ ورانہ کارڈ کی ادائیگی کی خدمات کے لیے نئے اصول جاری کر دیے ہیں۔
گوگل، ماسٹرکارڈ، ویزا اور ایمیزون جیسی بہت سی امریکی کمپنیاں اپنے کاموں پر نئے قواعد کے اثرات پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
بھارت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قومی سلامتی کی وجوہات کی وجہ سے ان مطالبات کو تسلیم کرے۔
بھارتی صارفین کے ڈیٹا کو ملک سے باہر محفوظ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، کیوں کہ بھارتی حکومت کی ان تک رسائی نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ، ڈیٹا لوکلائزیشن بھارت میں اسٹارٹ اپ سیکٹر کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔ کسی بھی صورت میں، امریکی کمپنیوں کے سرورز، یو پی ایس، جنریٹرز، عمارت اور اہل کاروں کے اعداد و شمار کی لوکلائزیشن کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات سے عالمی کمپنیوں کے منافع پر کوئی بڑا رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔
بھارت سالانہ 4 بلین امریکی توانائی کی مصنوعات درآمد کرتا ہے اور اس صنعت میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا تذکرہ فرانس کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی شہر بیارٹزمیں جی۔7 چوٹی کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔وزیراعظم مودی ملاقات میں ہوا تھا۔ اس اقدام پر عمل پیرا ہونے سے کچھ امریکی دباؤ دور ہوسکتا ہے اور ہیوسٹن میں پیشرفت کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں۔
پوجا مہرا نئی دہلی میں رہنے والی صحافی ہیں۔