کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے آنجہانی پی وی نرسمہا راؤ کے یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ 'ایک دوست، فلاسفر، رہنما اور بھارت کے اس عظیم سپوت کے بغیر اقتصادی اصلاحات ممکن نہیں ہوسکتی تھیں
سابق وزیر اعظم نے لکھا کہ 'پی وی نرسمہا راؤ کے ساتھ میری واقفیت سنہ 1988 سے تھی جب وہ وزیرِ خارجہ تھے اور میں ساؤتھ کمیشن میں سکریٹری جنرل تھا۔ ہم ایک دوسرے سے تب ملے تھے جب وہ جنیوا آئے تھے۔
سنہ 1991 میں تشکیلِ حکومت کے دن نرسمہا راؤ نے مجھے بلایا اور کہا کہ 'آؤ میں آپ کو اپنا وزیرِ خزانہ بنانا چاہتا ہوں'۔ وزیرِ خزانہ کے بطور حلف برداری کے لیے میرا راشٹر پتی بھون پہنچنا کئی لوگوں کے لیے حیران کُن تھا۔
وزیرِ خزانہ کا عہدہ قبول کرنے سے قبل میں نے آنجہانی نرسمہا راؤ سے کہا تھا کہ میں یہ عہدہ فقط اس صورت میں ہی قبول کروں گا کہ جب مجھے اُن کی پوری حمایت حاصل رہے گی۔
آنجہانی سابق وزیر اعظم نے مذاق اور سنجیدگی کے امتزاج کے ساتھ کہا 'آپ کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہوں گے، اگر (آپ کی) پالیسیاں کامیاب ہوں گی تو ہم سب ان کی ستائش کریں گے اور اگر وہ ناکام ہوئیں تو آپ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔
منموہن سنگھ نے کہا کہ 'حلف برداری کی تقریب کے بعد وزیرِ اعظم راؤ نے حزبِ مخالف کی میٹنگ بلائی، میں نے اُنہیں بریف کیا۔ مجھے یہ تاثر ملا کہ حزبِ اختلاف حیران تھا۔ وزیرِاعظم نے مجھے اقتصادی اصلاحات سے متعلق مکمل آزادی دی۔
اقتصادی اصلاحات فوری اور اچانک نہیں ہوئیں۔ وہ تاریخی تبدیلی اُس وقت کی دور اندیش سیاسی قیادت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ ہماری اقتصادی پالیسیوں کی ترتیبِ نو کو سمجھنے اور اقتصادی نمو کو سماجی انصاف کے ساتھ، تیز کرنے والا پہلا سیاسی رہنما خود اندرا گاندھی تھیں۔ اُن کے ابتدائی اقدامات کو راجیو گاندھی جی، جنہوں نے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے نئے زمانے کی آمد کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا، نے بہت آگے بڑھایا۔ اقتصادی اصلاحات سے قبل، اسی کی دہائی کے دوسرے نصف میں راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت کے ذریعہ اس سمت میں کچھ زور لگایا گیا تھا۔
ہمیں اُس بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیئے جس کے ساتھ نرسمہا راؤ جی نے اقتصادی اصلاحات کا ادراک کیا۔ جب 1991 میں وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ کے تحت کانگریس کی حکومت تشکیل دی گئی اور جب میں وزیرِ خزانہ تھا،اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا گیا۔
آنجہانی وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ جی کی قیادت میں ہم نے دونوں،اقتصادی پالیسیوں اور خارجہ پالیسی کے،تعلق سے اہم فیصلے لئے۔ بھارتی تجربے کی منفرد نوعیت ہماری شروع کردہ اصلاحات کا ایک اہم پہلو تھا۔ہم پہلے سے دئے ہوئے کسی فارمولہ کے ساتھ بندھے نہیں رہے۔مجھے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کے اُسوقت کے منیجنگ ڈائریکٹر مسٹر میشل کیمڈئسس اور وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ کے درمیان ہونے والی ملاقات یاد ہے۔
نرسمہا راؤ جی نے اُنہیں کہا کہ بھارت میں کی جانی والی اصلاحات بھارت کے خدشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہونی چاہیئں، ہم ایک جمہوریت ہیں۔ کام کرنے والے ہمارے لوگوں کے مفادات کو تحفظ ملنا چاہیئے۔ ہم نے آئی ایم ایف سے کہا کہ ہم اپنے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے نتیجے میں پبلک سیکٹر کے ایک بھی ملازم کی نوکری کے چھن جانے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہم نے اس یقین دہانی کو پورا کیا کہ اصلاحات ہماری ترجیحات کے موافق ہوں گی۔
وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ جی نے بھارت کی خارجہ پالیسی میں حقیقت پسندی کو سامنے لایا۔ انہوں نے پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ 1993 میں راؤ جی نے تعلقات میں تلخی کو ختم کرنے کیلئے چین کا دورہ کیا۔
ساؤتھ ایشیئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کاپریشن (ایس اے اے آر سی یا سارک) کے دیگر ممالک کے ساتھ بھارت نے جنوب ایشیائی ترجیحاتی تجارتی معاہدہ (ساوتھ ایشین پرفرنشیئل ٹریڈ ایگریمنٹ) پر دستخط کئے۔ اُنہوں نے ہی بھارت کو کئی مشرقی اور جنوب مشرق ایشیائی ممالک کے ساتھ جوڑنے والی ’’لُک ایسٹ پالیسی‘‘ جاری کی۔
نرسمہا راؤ جی کی قیادت میں ہی (بھارت) سرکار نے اہم ترین بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کا آغاز کیا، آگمینٹیڈ سیٹیلائٹ لانچ وہیکل (اے ایس ایل وی) اور بھارت کے خارجی سکیورٹی پروگرام کی مضبوطی کے لیے سنہ 1992 میں پولر سیٹیلائٹ وہیکل (پی ایس ایل وی) کا کامیاب تجربہ کیا۔ 1994 میں پرتھوی میزائل کے پہلے کامیاب تجربے کئے گئے اور بعدازاں اسے انٹرمیڈیٹ رینج آف بیلسٹک میزائلز کے بطور بنایا گیا۔
میں بھارت کے اس عظیم سپوت کو، جو ایک دوست - فلاسفر اور کئی طرح سے راہ نما تھے، خراجِ عقیدت پیش ادا کرنے کیلئے بہت خوش ہوں۔ جیسا کہ میں نے اُنہیں قریب سے دیکھا ،وہ سیاست میں ایک سچے سنیاسی تھے۔
وہ ایک جدت طراز تھے جو ہماری روایات اور اخلاقیات پر کھڑے تھے۔ وہ ایک نادر اسکالر اور سیاستداں تھے جنہوں نے نہ صرف ہماری اقتصادی بلکہ خارجہ پالیسی کو بھی ایک نئی سمت دے دی۔ کئی زبانوں پر اُن کا عبور صرف ایک لسانی صلاحیت نہیں تھی بلکہ اس سے وہ سچے معنوں میں پورے بھارت کی ایک ایسی شخصیت بنے ہوئے تھے جو کریم نگر، پونے، بنارس اور دہلی میں یکساں آسانی محسوس کرتے تھے۔