ETV Bharat / bharat

بابری مسجد کی تاریخی حیثیت، سنہ 1951 سے تاحال - بابری مسجد کی مکمل تاریخ

ڈپٹی کمشنر فیض آباد نے اسی مقدمہ سے متعلق یکم جولائی 1950ء کو جو حلف نامہ داخل کیا تھا اس میں بھی  بابری مسجد کی مسجدیت کا اعتراف و اقرار موجود ہے۔

بابری مسجد کی تاریخی حیثیت، سنہ 1951 سے تاحال
author img

By

Published : Nov 9, 2019, 8:16 AM IST

مذکورہ بالا مقدمہ کے علاوہ 1961 میں دو مزید مقدمات دائر کیے گئے ایک رام چندر داس کی جانب سے اور دوسرا نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے، جس کے جواب میں جمیعت علماء ہند اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی مقدمات قائم کیے گئے۔

جن میں کہا گیا تھا کہ یہ بابری مسجد مسلمانوں کی مسجد ہے جس میں وہ 1528ء سے برابر عبادت کرتے آ رہے ہیں لہٰذا یہ مسجد انھیں واپس دے دی جائے اور نماز وغیرہ میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔

تقریباً 35 برس کے طویل عرصہ تک یہ مقدمات عدالت میں زیرالتوارہے، ان سے متعلق کوئی موثٔر کارروائی نہیں کی گئی، اس دوران پولیس اوررسیور کی نگرانی کے باوجود مسجد کے اندر اور باہر خلاف قانون بہت سی تبدیلیاں کردی گئیں، مثلاً مسجد کے صدر دروازہ پر جلی حرفوں میں اللہ کندہ تھا جسے کھرچ دیاگیا، دروازہ پر جنم استھان مندر کا بورڈ لگادیا گیا، احاطہ کی شمالی چہار دیواری اور مسجد کی درمیانی جگہ میں سفید و سیاہ سنگ مرمر کا فرش بنایا گیا جسے پری کرما کا نام دیاگیا۔

صحن مسجد میں شمال جانب ایک ہینڈ پائپ نصب کردیاگیا۔ مسجد سے باہر مشرقی سمت میں ایک سفالہ پوش مندر اور مندر کے پجاری کے لیے ایک کمرہ تعمیر کرلیا گیا۔ جنوب کی طرف نام نہاد جنم استھان کے چبوترہ پر بھی ایک مندر بنا لیاگیا اور مسجد کے درمیانی گنبد پر ایک بھگوا جھنڈا لگادیا گیا یہ ساری تبدیلیاں درمیانی عرصہ میں کی گئیں مگر رسیور، انتظامیہ اور عدالت کی پیشانی سنہ 1961 ٔ سے 1986 ٔ تک شکن تک نہ آیا۔

مسلمان ابتداء ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں عدالت اور اس کے نظام قانون پر مکمل یقین واعتماد ہے، ملک کے ہر شہری کو ملک کی عدالت اور اس کے نظام قانون وانصاف پر اعتماد رکھنا ہی چاہیے۔

مذکورہ بالا مقدمہ کے علاوہ 1961 میں دو مزید مقدمات دائر کیے گئے ایک رام چندر داس کی جانب سے اور دوسرا نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے، جس کے جواب میں جمیعت علماء ہند اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی مقدمات قائم کیے گئے۔

جن میں کہا گیا تھا کہ یہ بابری مسجد مسلمانوں کی مسجد ہے جس میں وہ 1528ء سے برابر عبادت کرتے آ رہے ہیں لہٰذا یہ مسجد انھیں واپس دے دی جائے اور نماز وغیرہ میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔

تقریباً 35 برس کے طویل عرصہ تک یہ مقدمات عدالت میں زیرالتوارہے، ان سے متعلق کوئی موثٔر کارروائی نہیں کی گئی، اس دوران پولیس اوررسیور کی نگرانی کے باوجود مسجد کے اندر اور باہر خلاف قانون بہت سی تبدیلیاں کردی گئیں، مثلاً مسجد کے صدر دروازہ پر جلی حرفوں میں اللہ کندہ تھا جسے کھرچ دیاگیا، دروازہ پر جنم استھان مندر کا بورڈ لگادیا گیا، احاطہ کی شمالی چہار دیواری اور مسجد کی درمیانی جگہ میں سفید و سیاہ سنگ مرمر کا فرش بنایا گیا جسے پری کرما کا نام دیاگیا۔

صحن مسجد میں شمال جانب ایک ہینڈ پائپ نصب کردیاگیا۔ مسجد سے باہر مشرقی سمت میں ایک سفالہ پوش مندر اور مندر کے پجاری کے لیے ایک کمرہ تعمیر کرلیا گیا۔ جنوب کی طرف نام نہاد جنم استھان کے چبوترہ پر بھی ایک مندر بنا لیاگیا اور مسجد کے درمیانی گنبد پر ایک بھگوا جھنڈا لگادیا گیا یہ ساری تبدیلیاں درمیانی عرصہ میں کی گئیں مگر رسیور، انتظامیہ اور عدالت کی پیشانی سنہ 1961 ٔ سے 1986 ٔ تک شکن تک نہ آیا۔

مسلمان ابتداء ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں عدالت اور اس کے نظام قانون پر مکمل یقین واعتماد ہے، ملک کے ہر شہری کو ملک کی عدالت اور اس کے نظام قانون وانصاف پر اعتماد رکھنا ہی چاہیے۔

Intro:Body:

e5ty


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.