سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر ڈونالڈ ٹرمپ سے شکست کھانا والی سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے آئندہ صدارتی انتخابات کے ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ 'جوبائیڈن کی انتخابی مہم کا حصہ بن کر مجھے خوشی ہو گی اور میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی آرزو مند ہوں'۔
منگل کے روز بائڈن کے ساتھ ایک وڈیو کانفرنس کے دوران ہیلری نے کہا کہ "میں اپنی آواز اُن لوگوں میں شامل کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے اس بات کی تائید کی ہے کہ آپ ہمارے صدر ہوں"۔ سابقہ خاتونِ اول نے نومبر کے انتخابات میں بائڈن کے حریف اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ " آپ لوگ اس بات کو سوچیں کہ ہمارے پاس ایک حقیقی صدر ہو ،،، محض ایسا شخص نہ ہو جو ٹی وی اسکرین پر صدر کا کردار ادا کرتا ہو"۔
اپنی تاریخی امیدواری کے ساتھ کلنٹن امریکی زندگی میں ایک طاقتور اور متاثرکن شخصیت کے طور پر ابھری ہیں۔ ان کی 2016 کی مہم نے اکثر خواتین کو متاثر کیا اور ٹرمپ کے ہاتھوں ان کا نقصان ابھی بھی موضوع بحث ہے۔
سنہ 2020 کے ڈیموکریٹک صدارتی پرائمری الیکشن میں خواتین امیدواروں کو اکثر شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ کوئی عورت وائٹ ہاؤس کا الیکشن جیت سکتی ہے؟۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مضبوط حریف گردانے جانے والے سینیٹر برنی سینڈرز نہ صرف صدارتی انتخاب کی دوڑ سے کچھ عرصہ قبل خود کو علیحدہ کرچکے ہیں بلکہ وہ بھی جوبائیڈن کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔
بتادیں کہ گزشتہ صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن کو موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بزرگ سینیٹر برنی سینڈرز امریکہ کے نوجوانوں میں بیحد مقبول گردانے جاتے ہیں۔ ان کی دستبرداری کے ساتھ ہی اس بات کے امکانات روشن ہوگئے تھے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن ہی مضبوط ترین امیدوار ہوں گے۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھی صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اوبامہ کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی جو بائیڈن کی حمایت کا واضح اعلان کرچکی ہیں۔
بتادیں کہ امریکہ میں نومبر 2020 کو صدارتی انتخابات طئے ہیں۔ کورونا وائرس (کووڈ۔19) کی عالمی وبا اور اس سے بڑے پیمانے پر امریکیوں کے متاثر ہونے کے بعد تاحال صدارتی انتخابات کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا کہ صدارتی انتخابات پہلے سے طئے شدہ وقت پر ہی ہونگے یا اس میں کوئی تبدیلی بھی ممکن ہے؟