امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹز کر لکھا ہے کہ ' افغانستان کو ترک نہ کرنے کے ساتھ دنیا کے لئے بھی سبق موجود ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے گی۔ اصل جشن تب ہوگا جب ہم نے ان مقاصد کو حاصل کرلیا'۔
زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹز کر لکھا ہے کہ 'تاریخ افغانوں سے فیصلہ کرے گی کہ وہ موقع کے اس لمحے کو کس طرح گلے لگاتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے گریز کیا جانا چاہئے اور افغانوں کو ایک ساتھ مل کر ایک متحد اور خودمختار ملک کی تعمیر کرنا ہوگی'۔
چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ چار مرکزی حصوں پر مشتمل ہے جن میں:
(1)طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
(2)افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔
(3)طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
(4)انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔
معاہدے کی تفصیلات یہ ہیں:
٭ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیر ملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکیدار، شہری، نجی سیکورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔
٭ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔
٭ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔
٭امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے 9 ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔
٭ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔
٭انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 ء تک پابندی ختم کر دیگا۔
٭ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 ء تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔
٭ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریزاں رہیں گے۔
٭طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔
٭ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
٭ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ اور جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
٭ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔
٭ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔