ETV Bharat / bharat

ہریانہ میں کسانوں کی تحریک کو حزب اختلاف کی حمایت

ریاست ہریانہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کے حوالے سے تین آرڈیننس لائے جانے پر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ وہیں اس کی مخالفت میں حزب اختلاف بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے آرہا ہے۔ ہریانہ کانگریس کی صدر کماری شیلجا نے کہا کہ وہ کسانوں پر ہورہے ظلم و ستم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہیں۔

ہریانہ میں  کسانوں کی تحریک میں حزب اختلاف کا ساتھ
ہریانہ میں کسانوں کی تحریک میں حزب اختلاف کا ساتھ
author img

By

Published : Sep 12, 2020, 2:12 PM IST

ہریانہ میں ریاست بھر کے کسانوں کا حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے۔10 ستمبر کو پوررے ریاست میں 'کسان بچاؤ، منڈی بچاؤ کے نعرے کے ساتھ کسان سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔بھارتی کسان یونین اور دیگر کسان تنظیموں نے کرورشیتر کے پپلی میں قومی شاہراہ کو جام کردیا۔ماحول اتنا مزید خراب ہوگیا کہ پولیس نے مظاہرین کو ہٹانے کے لئے بھی لاٹھی چارج کیا۔

اس آرڈیننس کے خلاف ہنگامہ کیوں ہورہا ہے؟

ہریانہ میں کسانوں کی تحریک میں حزب اختلاف کا ساتھ

کورونا دور میں اس طرح کا احتجاج مختلف سوال کھڑا کرتا ہے، لیکن کسی نتیجے پر پہلے یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ مرکز کے ان تینوں آرڈیننسز میں ایسا کیا ہے؟ جس کے خلاف آج کسانوں کو سڑکوں پر اترنا پڑا، آئیے اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔

اس آرڈیننس کے تحت کسانوں کو یہ سہولت حاصل ہوگی کہ وہ اپنی فصلیں کو ملک کے کسی بھی حصے میں فروخت کرسکتے ہیں۔کسانوں کی فصل کو کوئی بھی کمپنی یا فرد خرید سکتا ہے۔اسی کے ساتھ ہی اس آرڈیننس میں کاشتکاروں کو تین دن کے اندر پیسہ ملنے کی بات کہی گئی ہے۔

کسان اس آرڈیننس سے ناخوش کیوں ہیں؟

اس معاملے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو خوف ہے کہ کمپنیوں کے دباؤ میں حکومت ان کے ساتھ ناانصافی نہ کردے۔اسی وجہ سے کسان خوفزدہ ہیں۔


اس آرڈیننس کے تحت حکومت نے کانٹیکٹ کھیتی باڑی کو فروغ دینے کی بات کی ہے۔
کسان اس آرڈیننس سے خوفزدہ ہیں کہ کسان اپنے اپنے کھیتوں میں مزدور بن کر رہیں گے۔ جس کے خلاف کسان سڑک پر احتجاج کر رہے ہیں۔

سال 1955 میں ملک میں بلیک مارکیٹنگ کو روکنے کے لئے ضروری اجناس کا ایکٹ لاگو کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص اشیائے خوردونوش کی ایک خاص مقدار سے زیادہ ذخیرہ نہیں کرسکتا ہے۔

کسانوں کے پاس لمبے وقت تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔جس کی وجہ سے انہیں اپنی مصنوعات کو کمپنیوں کو فروخت کرنا پڑے گا اور کمپنیاں جب چاہیں ان مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کرکے لوگوں سے پیسے کما سکتی ہے ۔یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے کسان اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

کماری شیلجا کیوں حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہے؟

مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ تینوں آرڈیننس زراعت کے شعبے میں انقلاب لائیں گے، ہریانہ کانگریس کی صدر کماری شیلجا نے کہا کہ وہ کسانوں پر ہورہے ظلم و ستم کی مذمت کرتی ہیں۔حکومت ہر سیکٹر کے پرائیوٹائیسیشن کے لیے آمادہ ہوچکی ہے۔

کانگریس کی ریاستی صدر کماری شیلجا سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سابق وزیراعلی بھوپیندر سنگھ نے کہا کہ کسانوں پر لاٹھی چارج کیا جانا بی جے پی حکومت کی کفن میں آخری کیل ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت کو 10 دن کا وقت دیتا ہوں اگر کسانوں کے خلاف درج مقدمات کو واپس نہیں لیا گیا تو ہم جہاد کا آغاز کریں گے۔

ایک طرف حزب اختلاف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں وہیں ریاست کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ کہیں بھی لاٹھی چارج نہیں ہوا ہے، کسی کا بھی میڈیکل نہیں ہوا ہے۔

ہریانہ میں ریاست بھر کے کسانوں کا حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے۔10 ستمبر کو پوررے ریاست میں 'کسان بچاؤ، منڈی بچاؤ کے نعرے کے ساتھ کسان سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔بھارتی کسان یونین اور دیگر کسان تنظیموں نے کرورشیتر کے پپلی میں قومی شاہراہ کو جام کردیا۔ماحول اتنا مزید خراب ہوگیا کہ پولیس نے مظاہرین کو ہٹانے کے لئے بھی لاٹھی چارج کیا۔

اس آرڈیننس کے خلاف ہنگامہ کیوں ہورہا ہے؟

ہریانہ میں کسانوں کی تحریک میں حزب اختلاف کا ساتھ

کورونا دور میں اس طرح کا احتجاج مختلف سوال کھڑا کرتا ہے، لیکن کسی نتیجے پر پہلے یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ مرکز کے ان تینوں آرڈیننسز میں ایسا کیا ہے؟ جس کے خلاف آج کسانوں کو سڑکوں پر اترنا پڑا، آئیے اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔

اس آرڈیننس کے تحت کسانوں کو یہ سہولت حاصل ہوگی کہ وہ اپنی فصلیں کو ملک کے کسی بھی حصے میں فروخت کرسکتے ہیں۔کسانوں کی فصل کو کوئی بھی کمپنی یا فرد خرید سکتا ہے۔اسی کے ساتھ ہی اس آرڈیننس میں کاشتکاروں کو تین دن کے اندر پیسہ ملنے کی بات کہی گئی ہے۔

کسان اس آرڈیننس سے ناخوش کیوں ہیں؟

اس معاملے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو خوف ہے کہ کمپنیوں کے دباؤ میں حکومت ان کے ساتھ ناانصافی نہ کردے۔اسی وجہ سے کسان خوفزدہ ہیں۔


اس آرڈیننس کے تحت حکومت نے کانٹیکٹ کھیتی باڑی کو فروغ دینے کی بات کی ہے۔
کسان اس آرڈیننس سے خوفزدہ ہیں کہ کسان اپنے اپنے کھیتوں میں مزدور بن کر رہیں گے۔ جس کے خلاف کسان سڑک پر احتجاج کر رہے ہیں۔

سال 1955 میں ملک میں بلیک مارکیٹنگ کو روکنے کے لئے ضروری اجناس کا ایکٹ لاگو کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص اشیائے خوردونوش کی ایک خاص مقدار سے زیادہ ذخیرہ نہیں کرسکتا ہے۔

کسانوں کے پاس لمبے وقت تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔جس کی وجہ سے انہیں اپنی مصنوعات کو کمپنیوں کو فروخت کرنا پڑے گا اور کمپنیاں جب چاہیں ان مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کرکے لوگوں سے پیسے کما سکتی ہے ۔یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے کسان اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

کماری شیلجا کیوں حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہے؟

مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ تینوں آرڈیننس زراعت کے شعبے میں انقلاب لائیں گے، ہریانہ کانگریس کی صدر کماری شیلجا نے کہا کہ وہ کسانوں پر ہورہے ظلم و ستم کی مذمت کرتی ہیں۔حکومت ہر سیکٹر کے پرائیوٹائیسیشن کے لیے آمادہ ہوچکی ہے۔

کانگریس کی ریاستی صدر کماری شیلجا سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سابق وزیراعلی بھوپیندر سنگھ نے کہا کہ کسانوں پر لاٹھی چارج کیا جانا بی جے پی حکومت کی کفن میں آخری کیل ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت کو 10 دن کا وقت دیتا ہوں اگر کسانوں کے خلاف درج مقدمات کو واپس نہیں لیا گیا تو ہم جہاد کا آغاز کریں گے۔

ایک طرف حزب اختلاف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں وہیں ریاست کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ کہیں بھی لاٹھی چارج نہیں ہوا ہے، کسی کا بھی میڈیکل نہیں ہوا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.