ETV Bharat / bharat

'تاریکی میں ہی روشنی کی کِرن نکلتی ہے'

موہن داس کرم چند گاندھی نے کہا تھا کہ 'میں 12 برس کا بچہ تھا جب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد میں مجھے دلچسپی ہونے لگی'۔ گاندھی جی کے بچپن کا خواب تھا کہ وہ ہندو، مسلم اور پارسیوں کے مابین ہم آہنگی برقرار رکھیں۔

تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے
author img

By

Published : Sep 10, 2019, 8:41 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 4:16 AM IST

شاید یہی وجہ رہی کہ انڈین نیشنل کانگریس نے سنہ 1885 میں ایک ہندو کو صدر منتخب کیا تو سنہ 1886 میں کلکتہ میں ایک پارسی کو، سنہ 1887 میں مدراس میں ایک مسلمان کو جبکہ سنہ 1888 میں الہ آباد میں ایک انگریز کو صدر منتخب کیا گیا۔

کئی برسوں تک یہ نظام مسلسل چلتا رہا جس کی وجہ سے ثقافتی اتحاد اور سیکولرازم دیکھنے کو ملا۔

پوربندر کے ایک لڑکے موہن داس، جس نے راجکوٹ کے اسکول میں ثقافتی اتحاد اور انسانی روح کی مشترکہ قدریں حاصل کی تھیں، انگلینڈ میں بیرسٹر بننے سے پہلے اپنی والدہ کے قدموں میں گر کر وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکیزہ اور نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

جنوبی افریقہ، جہاں بطور ایک وکیل گاندھی جی نے اپنی ابتدائی زندگی کے دو عشرے سے بھی زیادہ وقت گزارا، وہاں انہیں کئی بار جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ اس کے بعد گاندھی عدم تشدد تحریک کے چیمپیئن کے طور پر اُبھرے۔ انہوں نے یہیں صلح آمیز اور نسل پرستی کے خلاف عدم تشدد کی تحریک چلائی۔

ستیہ گرہ کی ابتداء جنوبی افریقہ میں ہوئی۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کے ایک دوست نے خط میں لکھا تھا : 'آپ نے ہمیں وکیل دیا اور ہم نے آپ کو مہاتما دیا'۔ خود گاندھی نے ستیہ گرہ کو 'دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار' قرار دیا تھا۔

'تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے'
'تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے'

جب مہاتما گاندھی اپنے مادر وطن واپس لوٹے تو بھارت میں ماحول خراب تھا۔ ان کا مقصد بھارت کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا اور ساتھ ہی ناانصافی اور استحصال سے بھی آزاد ی حاصل کرانا تھا۔

انگلینڈ میں بیرسٹر کی حیثیت سے انہوں نے مظلوم جنوبی افریقی شہریوں کو نسلی امتیاز سے بچانے کے لیے مہم چلائی اور ایک ہیرو کی طرح بھارت واپسی کی۔ انہوں نے ستیہ گرہ، عدم تشدد اور پیار کے ہتھیاروں سے کام لیا۔

رومین رولینڈ نے گاندھی جی کے بارے میں اس طرح کا خلاصہ پیش کیا: 'مہاتما گاندھی نے اپنے تین سو ملین ساتھیوں کو جگا کر برطانوی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا اور انسانی سیاست میں ایک طاقتور تحریک کا افتتاح کیا جسے دنیا نے تقریبا دو ہزار برسوں سے نہیں دیکھا تھا'۔

گاندھی جی نے محبت، شفقت اور معافی کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ذاتی زندگی میں بھی ایسے مواقع آئے جب وہ اپنے لواحقین سے معافی مانگتے تھے۔

اپنے ناراض اور احتجاج کرنے والے بیٹے کو انہوں نے ایک بار آہستہ سے کہا: ' اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ غلط کام کیا ہے تو اپنے والد کو معاف کردو'۔ ان کی سنجیدگی نے ان کے سخت تنقید کرنے والوں کو بھی حیرت زدہ اور خاموش کر کے رکھ دیا تھا۔ گاندھی جی کی شخصیت کو گوتم بدھ اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کے مطابق بتایا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کی دنیا میں، جہاں اقتدار اور دولت کی حوس ہے، تشدد، بدعنوانی اور غربت کے چلن ہے، تو پھر کس مستقبل کی امید کی جائے؟
اس کا جواب مہاتما گاندھی کی وراثت میں موجود ہے، یعنی تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے۔

جیسا کہ کنگسلی مارٹن نے کہا ہے کہ 'گاندھی کی زندگی اور موت اس یقین کے گواہ رہے ہیں کہ انسان سچائی اور محبت کے ذریعہ بدگمانی، ظلم اور تشدد پر قابو پاسکتا ہے۔'

شاید یہی وجہ رہی کہ انڈین نیشنل کانگریس نے سنہ 1885 میں ایک ہندو کو صدر منتخب کیا تو سنہ 1886 میں کلکتہ میں ایک پارسی کو، سنہ 1887 میں مدراس میں ایک مسلمان کو جبکہ سنہ 1888 میں الہ آباد میں ایک انگریز کو صدر منتخب کیا گیا۔

کئی برسوں تک یہ نظام مسلسل چلتا رہا جس کی وجہ سے ثقافتی اتحاد اور سیکولرازم دیکھنے کو ملا۔

پوربندر کے ایک لڑکے موہن داس، جس نے راجکوٹ کے اسکول میں ثقافتی اتحاد اور انسانی روح کی مشترکہ قدریں حاصل کی تھیں، انگلینڈ میں بیرسٹر بننے سے پہلے اپنی والدہ کے قدموں میں گر کر وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکیزہ اور نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

جنوبی افریقہ، جہاں بطور ایک وکیل گاندھی جی نے اپنی ابتدائی زندگی کے دو عشرے سے بھی زیادہ وقت گزارا، وہاں انہیں کئی بار جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ اس کے بعد گاندھی عدم تشدد تحریک کے چیمپیئن کے طور پر اُبھرے۔ انہوں نے یہیں صلح آمیز اور نسل پرستی کے خلاف عدم تشدد کی تحریک چلائی۔

ستیہ گرہ کی ابتداء جنوبی افریقہ میں ہوئی۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کے ایک دوست نے خط میں لکھا تھا : 'آپ نے ہمیں وکیل دیا اور ہم نے آپ کو مہاتما دیا'۔ خود گاندھی نے ستیہ گرہ کو 'دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار' قرار دیا تھا۔

'تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے'
'تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے'

جب مہاتما گاندھی اپنے مادر وطن واپس لوٹے تو بھارت میں ماحول خراب تھا۔ ان کا مقصد بھارت کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا اور ساتھ ہی ناانصافی اور استحصال سے بھی آزاد ی حاصل کرانا تھا۔

انگلینڈ میں بیرسٹر کی حیثیت سے انہوں نے مظلوم جنوبی افریقی شہریوں کو نسلی امتیاز سے بچانے کے لیے مہم چلائی اور ایک ہیرو کی طرح بھارت واپسی کی۔ انہوں نے ستیہ گرہ، عدم تشدد اور پیار کے ہتھیاروں سے کام لیا۔

رومین رولینڈ نے گاندھی جی کے بارے میں اس طرح کا خلاصہ پیش کیا: 'مہاتما گاندھی نے اپنے تین سو ملین ساتھیوں کو جگا کر برطانوی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا اور انسانی سیاست میں ایک طاقتور تحریک کا افتتاح کیا جسے دنیا نے تقریبا دو ہزار برسوں سے نہیں دیکھا تھا'۔

گاندھی جی نے محبت، شفقت اور معافی کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ذاتی زندگی میں بھی ایسے مواقع آئے جب وہ اپنے لواحقین سے معافی مانگتے تھے۔

اپنے ناراض اور احتجاج کرنے والے بیٹے کو انہوں نے ایک بار آہستہ سے کہا: ' اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ غلط کام کیا ہے تو اپنے والد کو معاف کردو'۔ ان کی سنجیدگی نے ان کے سخت تنقید کرنے والوں کو بھی حیرت زدہ اور خاموش کر کے رکھ دیا تھا۔ گاندھی جی کی شخصیت کو گوتم بدھ اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کے مطابق بتایا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کی دنیا میں، جہاں اقتدار اور دولت کی حوس ہے، تشدد، بدعنوانی اور غربت کے چلن ہے، تو پھر کس مستقبل کی امید کی جائے؟
اس کا جواب مہاتما گاندھی کی وراثت میں موجود ہے، یعنی تاریکی میں ہی روشنی کی آمد ہوتی ہے۔

جیسا کہ کنگسلی مارٹن نے کہا ہے کہ 'گاندھی کی زندگی اور موت اس یقین کے گواہ رہے ہیں کہ انسان سچائی اور محبت کے ذریعہ بدگمانی، ظلم اور تشدد پر قابو پاسکتا ہے۔'

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 4:16 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.