ستیہ گرہ کی تحریک کے دوران گاندھی جی کئی کلو میٹر پیدل چلے جس کے لیے جذبے کے ساتھ ساتھ صحت بھی بے حد ضروری تھی۔ ان کے کھانے کی عادات نے انہیں اپنی خواہش کو پورا کرنے میں مدد کی۔
گاندھی جی نے اپنی صحت کی تجاویز مرتب کی تھیں جب وہ سنہ 1942-1944 کے دوران پونے کے آغا خان محل میں قید تھے، جس کا انگریزی میں سشیلا نیئر نے ترجمہ کیا تھا۔
گاندھی نے یوگ اور روحانیت کی زندگی بسر کی جو غذا پر قابو پانے کے ذریعے احساس اعضاء پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔ فاقہ کرنا، کھانا نہ کھانے کے مترادف نہیں ہے بلکہ یہ خود کو غیر صحت مند کھانے سے دور رہنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے انسانی جسم کو زمین، پانی، خالی جگہ ، روشنی اور ہوا کی ترکیب کے طور پر بیان کیا۔ یہ عمل انسان کے پانچ حواس پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بدہضمی کو تمام بڑی بیماریوں کی واحد وجہ قرار دیا تھا اور اس کے لیے کئی روایتی علاج تجویز کیے۔
گاندھی جی نے اناج، دالوں، خوردنی جڑوں، سبز پتوں، تازہ اور خشک میوہ جات، دودھ اور دودھ کی مصنوعات پر مشتمل سبزی والی غذا کی خوراک کے طور پر پیروی کی۔ انہوں نے ہمیشہ دوا لینے سے پرہیز کیا اور اپنی غذا میں تبدیلیوں کے ذریعہ اپنی بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کی۔
گاندھی جی نے لکھا تھا کہ : 'جسم کو تندرست رکھنے کے لیے کھانے کو ڈیوٹی یا دوا کے طور پر کھانا چاہیے نہ کہ پیٹ بھرنے کے لیے کھانا چاہیے۔'
گاندھی جی گرم مشروبات جیسے کم مقدار میں کافی اور ہربل چائے پینے پر زور دیتے تھے۔ گاندھی جی نشہ آور چیزیں جیسے شراب، تمباکو اور ڈرگز کے خلاف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ان سب چیزوں سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی قابلیت پر اثر پڑتا ہے اور جسم میں غیر ضروری تبدلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
گاندھی جی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ صحت مند دماغ سے ہی صحت مند جسم بن سکتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جسم کو یوگ اور ورزش کی ضرورت ہے۔
گاندھی جی ہمیشہ ستیہ گرہ میں شامل افراد اور عدم تشدد کے پیروکاروں کو تلخ کلامی سے بچنے کا درس دیتے تھے۔
گاندھی جی کو یقین تھا کہ صحت ہی اصل دولت ہے، انہوں نے کہا تھا کہ: 'صحت ہی اصل دولت ہے نہ کہ سونا اور چاندی۔'