دلچسپ بات یہ ہے کہ وفد سے ملاقات کرنے سے قبل دونوں لیفٹیننٹ جنرلز کے درمیان ایک گھنٹے تک طویل گفتگو بھی ہوئی تھی۔ سرحد پر پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے لیفٹیننٹ جنرل سطح کی میٹنگ منعقد کی گئی تھی۔ اس سے پہلے برگیڈیئر اور چیف ملٹری آفیسرز کی سطح پر متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔
ایک دیگر اعلی فوجی سطح کے ذرائع کے مطابق اس طرح کی فوجی سطح کے اجلاس آئندہ بھی منعقد کیے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ سرحد پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ چین کے ذریعہ خیموں، دیگر عارضی ڈھانچے اور ذخائر کا جمع کرنا ہے۔ اگر بھارت سرحدی علاقوں میں انفرانسٹرکچر اور سڑکوں کی تعمیر کرتا ہے تو اس کے خلاف چین اپنے اعتراضات کو ظاہر کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس کا فوری طور پر کوئی مستقل حل نظر نہیں آرہا ہے۔ بھارت تعمیراتی کام کے لیے پرعزم ہے۔ بھارت نے کہا ہے کہ اس کا سڑک کی تعمیراتی کام جاری رہے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس سے قبل مشرقی لداخ میں صورتحال تب مزید بگڑ گئی تھی جب 5 مئی کی شام چین اور بھارت کے مابین 250 فوجیوں کے درمیان تصادم ہوگیا تھا، یہ کشیدگی اگلے دن بھی جاری رہی۔اسی طرح کا واقعہ 9 مئی کو شمالی سکم کے ناکولا درے کے قریب بھی پیش آیا تھا، جس میں بھارت اور چین کے تقریباً 150 فوجی اہلکار ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں ڈوکلام میں دونوں ممالک کی فوج کے درمیان 73 دنوں تک تنازعہ جاری رہا تھا۔ بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 488 کلومیٹر طویل ایل اے سی پر تنازعہ چل رہا ہے۔ چین، اروناچل پردیش پر اپنا دعوی ہمیشہ سے کرتا آرہا ہے اور اسے جنوبی تبت کا حصہ بتاتا ہے، وہیں بھارت نے اسے اپنا اٹوٹ حصہ قرار دیا ہے۔ دونوں فریق کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں امن و استحکام برقرار رکھنا ضروری ہے، جب تک کہ سرحدی علاقوں کا تنازعہ حل نہیں ہوجاتا۔
گزشتہ چند مہینوں میں چین بڑے پیمانے پر ہیلی کاپٹر کی مدد سے مشرقی لداخ سیکٹر سمیت گلوان کے علاقوں میں نظر رکھ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق چینی فوج اکثر اپنے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور چینی فوج ایل اے سی پر بھارتی علاقوں کے قریب گشت کرتی ہوئی بھی نظر آئی ہے۔
جون کے پہلے ہفتے میں پپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے وسطی چین کے ہوبی صوبہ کی سرحد کے بیچ اونچائی والے علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں پیرا ٹروپرز او بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگی مشق کی تھی۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے اس بات کا دعوی کیا تھا۔
مشرقی لداخ میں حساس صورتحال کے بارے میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ چینی اس علاقے تک آگئے ہیں جس کا وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ان علاقہ ہے، جبکہ بھارت کا ماننا ہے کہ وہ علاقہ بھارت کا حصہ ہے۔ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'اس کے بارے میں ہمیشہ سے اختلاف رائے رہا ہے اور چینی باشندوں کی کثیر تعداد بھی اس علاقے تک پہنچ گئی ہے، لیکن بھارت کو اپنی طرف سے جو کچھ بھی کرنا چاہیے تھا بھارت نے وہ اقدام اٹھائے ہیں۔
لداخ میں 31 مئی اور یکم جون کو بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کی بات سامنے آئی تھی۔ فوجی ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کی فوجیں مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر اسلحہ، ٹینک اور دیگر بھاری گاڑیاں لے کر آرہی ہیں۔
اس سے قبل خبر سامنے آرہی تھی کہ چین جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ مئی میں ملی خبروں کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے بدترین صورتحال کا تصور کرتے ہوئے فوج کو جنگ کی تیاریوں میں تیزی لانے کا حکم جاری کیا تھا۔ شی جن پنگ نے فوج سے پورے عزم کے ساتھ ملک کی خودمختاری کا دفاع کرنے کو کہا تھا۔
دفاعی امور کے ماہر سی ادئے بھاسکر نے بھی کہا ہے کہ لداخ میں بھارت - چین تعطل اس بار مختلف اور پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اورچین کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں سرحد سے متعلق جو کشیدگی ابھی نظر آرہی ہے، وہ علاقائیت اور حالیہ پیشرفت سے منسلک ہے۔ اس کا تعلق چار ہزار کلومیٹڑ لمبی 'غیر حد بندی' لائن آف ایکچووئل کنٹرول سے ہے۔
مئی کے ماہ سے ہی چینی فضائیہ لداخ کے قریب گشت کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں بھارت بھی لڑاکا طیارہ بھیج رہا ہے۔