ایک حملے میں تو گاندھی کے ساتھ ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی قتل کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگرہ پر منعقد ایک سیمینار میں مشہور گاندھی وادی اور گاندھی امن ادارے کے صدر کمار پرشانت نے کہی۔ یہ سیمینار رضا فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدکیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پرشانت کی ایک تقریر میں گاندھی جی کے قتل میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہاتھ بتائے جانے پر اڑیسہ میں ان پر دو مقدمے درج ہو چکے ہیں ۔لوک نائک جے پرکاش نارائن کے داماد پرشانت نے لیکچر میں تمام حملوں کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا لیکن گاندھی مارگ میگزین کے نئے شمارے میں اس تعلق سے ایک طویل مضمون لکھا ہے۔
انہوں نے اپنے لیکچر کے شروع میں کہا کہ گاندھی جی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ میری زندگی ہی میرا پیغام ہے لیکن ان کی موت بھی ایک پیغام ہے۔
دھرم یُگ سے اپنی صحافت شروع کرنے والے پرشانت نے کہا کہ گاندھی جی جب جنوبی افریقہ میں تھے اس کے بعد سے ہی ان پر حملے ہوتے رہے اور ہر مرتبہ انہوں نے حملہ آوروں کو معاف کر دیا کیونکہ وہ عدم تشدد میں یقین رکھتے تھے۔
ایک حملہ آور میر عالم تو بعد میں ان کا حامی بن گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دس فروری سنہ 1908 میں گاندھی جی پر جنوبی افریقہ میں جب عالم طرف سے جان لیوحملہ ہوا تو انہوں نے اس وقت بھی ’ہے رام ‘ ہی کہا۔
مختلف اخبارات میں کالم نگار رہے پرشانت نے کہا کہ گاندھی جی کے ’رام‘ انہیں خوف سے آزاد کرنے والے ’رام‘ تھے، وہ ان کے لیے دشرتھ کے بیٹے رام نہیں تھے۔ ان کے ’رام‘ ان کے ساتھ زندگی بھر رہے اور انہیں موت سے کبھی خوف نہیں ہوا ۔
انہوں نے اپنے اوپر ہوئے حملے کے تعلق سے کبھی کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اس بارے میں لکھا۔ انہوں نے کہا کہ جب 30 جنوری 1948 سے دس دن پہلے ان کی ’ پراتھنا سبھا ‘میں مدن لال پاهوا نے بم دھماکہ کیا جس میں گاندھی کے ساتھ نہرو کو بھی جان سے مار ڈالنے کی منصوبہ بندی ساورکر نے کی تھی لیکن بم کچھ فاصلے پر پھٹا جس سے کوئی حادثہ نہیں ہوا لیکن گاندھی جی نےاسے عام واقعہ کے طور پر لیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
انہوں نے کہا کہ سردار پٹیل نے جب خفیہ رپورٹ کو دیکھتے ہوئے گاندھی جی کی پراتھنا سبھا میں سکیورٹی انتظامات اور لوگوں کی تلاشی کرنے کی تجویز پیش کی تو گاندھی جی نے اس سے انکار کر دیا ۔
انہوں نے کہا کہ گاندھی جی زندگی بھر اکیلے رہے کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا جبکہ انہوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کو ساتھ لیا۔ لیکن آزادی سے قبل ہی گاندھی کے راستے سے الگ تھلگ ہو گئے اور لوگ دوسرے راستے پر چلنے لگے اور آج تو لوگ گاندھی جی کے راستے کے خلاف چلنے لگے ۔
انہوں نے گذشتہ دنوں گاندھی مارگ میگزین میں 60 صفحےکے مضمون میں گاندھی پر ہوئے قاتلانہ حملوں کی تفصیلی معلومات دی ہے جس میں اس حملے کے پیچھے سنگھ پریوار کا ہاتھ بتایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ گاندھی پر پہلا حملہ 1934 میں پونے میں ہوا۔ دوسرا حملہ 1944 کو پونے کے نزدیک پنچ گنی میں ہوا ۔ تیسرا 1944 میں سیواگرام میں اور چوتھا 30 جون 1946 میں پونے کے راستے میں ٹرین پلٹنے کی سازش رچی گئی جب وہ اسی ٹرین سے جا رہے تھے ۔