کسان تنظیموں نے زرعی اصلاحات قوانین کی مخالفت اور فصلوں کی کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کے لئے قانونی حیثیت کا مطالبہ کرتے ہوئے پیر کو یوم خواتین کسان منایا۔ اس دوران خواتین نے اس احتجاج کی قیادت کی جو گذشتہ 54 دنوں سے قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر احتجاج کررہی ہے۔
اس دوران ضلع سطح پر یوم خواتین کسان منایا جارہا ہے۔ سندھو بارڈر پر اسٹیج آپریشن اور تمام اہم کام خواتین رہنماؤں اور کارکنوں نے سنبھالے۔
خواتین کسان نہ صرف اس تحریک میں حصہ لے رہی ہیں بلکہ حکومت کے ساتھ بات چیت میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔
دریں اثنا، وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا ہے کہ حکومت نےبہت محنت سے نئے زرعی اصلاحات قوانین بنائے ہیں۔ حکومت کی اصلاحات کسانوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہوں گی اور وہ ان کے معیار زندگی کو بلند کریں گے۔
نریندر تومر نے یہ بات نیشنل کانفرنس برائے زرعی اصلاحات کے ذریعہ نیشنل کوآپریٹو مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں کہی۔
نریندر تومر نے بتایا کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جب بھی ملک کو کسی بحران کا سامنا کرنا پڑا، تب دیہات کی روایات اور معیشت نے اپنی طاقت قائم کی ہے۔ کووڈ بحران میں حکومت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس عرصے میں متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لئے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہی ہے۔ بڑے اور چھوٹے کسانوں کی صورتحال مختلف ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے چھوٹے کاشتکاروں کو سرکاری اسکیموں، سبسڈیوں، ایم ایس پی، ٹکنالوجی، مارکیٹ روابط وغیرہ کے فوائد دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت غور و فکر کے بعد زراعت کے شعبہ میں قانونی تبدیلیاں لانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ نئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ اس طرح کے قوانین پہلے بھی بنانے کے بارے میں سوچی گئی تھی لیکن اس سے قبل کی حکومت دباؤ میں آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔