بھارتی بیوروکریسی جو دہائیوں سے بدعنوانی، اقربا پروری، عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور ناقابل معافی رازداری جیسے چار ستونوں پر کھڑی ہے۔
اگرچہ انتظامی امور میں جعلسازی اور بدعنوانیوں پر قابو رکھنے کے لیے سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کی تشکیل سنہ 1964 میں کی گئی تھی لیکن اس کا وجود صرف ایک کاغذی شیر کی طرح برائے نام رہ گیا ہے۔
سی وی سی نے حال ہی میں مرکزی حکومت کے تمام محکموں کے سیکریٹریز، پبلک سیکٹر بینکس کے سی ای اوز اور انشورنس کمپنیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ طویل مدت سے زیر التوا بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات مئی تک مکمل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ کے بڑے بڑے ذمہ دار افراد جو اپنے قریبی اور عزیزوں کو ایسے معاملات سے بچانے میں ماہر ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان احکامات کو کیسے ناکام بنایا جائے۔
بد عنوانی کا یہ نظام اب اتنا آزاد ہوچکا ہے کہ کاغذات کو آگے بڑھانے کے کسی بھی مرحلے میں 'ہاتھ گرم' کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ انتظامیہ کے اعلی عہدوں پر فائز افراد اس سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ بدعنوان اہلکاروں کی مدد بھی کرتے ہیں۔
سی وی سی نے واضح کیا ہے کہ تفتیش میں غیر مناسب تاخیر سے بدعنوان ملازم کو مزید حوصلہ ملے گا اور کسی بھی وجہ سے نگرانی کے معاملے میں پھنسے ہوئے ایماندار شخص کو اس سے کافی تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حالانکہ نگرانی معاملات کی مختلف مراحل پر تحقیقات مکمل کرنے کے بارے میں واضح ہدایتیں موجود ہیں لیکن کوئی بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ عزم ہے کہ 'میں (بدعنوانی کا پیسہ) نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا۔ اس نظریے سے دیکھا جائے تو نوکر شاہی میں بدعنوانی اور نا اہلیت کو ختم کرنے کے لیے اپنی سطح پر بہترین کام کرنا سِکے کا ایک پہلو ہے لیکن دوسرے پہلو کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی وزارتیں اور محکمے بد عنوان افسران کا تحفظ کررہے ہیں اور انہیں کسی بھی کارروائی سے بچا رہے ہیں۔
سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں متعلقہ وزارتوں نے 44 معاملات میں سی وی سی کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا جن میں سے 19 معاملات میں ریلوے سرفہرست ہے۔
مارچ سنہ 2013 میں سی وی سی کی سفارش پر ریلوے ٹینڈرز میں بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی سی بی آئی نے تین نجی کمپنیوں اور 11 ریلوے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور ایک اہم ملزم کے خلاف مناسب کارروائی کی سفارش کی تھی۔
سی وی سی نے تصدیق کی ہے کہ تحقیقات کے تحت زیر التواء بدعنوانی کے معاملات کی تعداد 6،226 تھی جن میں سے 182 مقدمات ایسے ہیں جو گزشتہ 20 سال سے زیر سماعت ہیں اور 1،599 کیسز ایسے ہیں جو گزشتہ 10 برسوں سے زیر سماعت ہیں۔
ایسا نظام جہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار برائے نام رہ گیا ہے۔ جب تک وہ مضبوط نہیں ہوجاتا اور اپنی غلطیوں کے لیے پارلیمنٹ کو براہ راست جوابدہ نہیں بنتا تب تک بدعنوانی کا خاتمہ خام خیالی کے مترادف ہے۔