اسی سلسلے میں کل ہند شیعہ علماء ذاکرین حیدرآباد کے صدر سید نثار حسین آغا نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کی۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ' ڈاکٹر کلب صادق کا انتقال ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ مولانا نے جو کارنامہ انجام دیے ہیں دنیا اس سے واقف ہے، تاہم مولانا کے انتقال سے ہم غمزدہ ہیں ہمارے دل مجروح ہیں ہمارے آنکھوں میں آنسو ہیں۔ مولانا ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ان کے کارنامے جب ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ مولانا میرے والد محترم کے دوست تھے اور ہمارے ساتھ خاص لگاؤ تھا۔ مولانا کے انتقال سے ہمارا دل مغموم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ' تعلیمی میدان میں مولانا نے بہت سارا کام کیا ہے، ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب انہوں نے سنہ 1982 کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کے لیے تنظیم قائم کی، اس دوران مولانا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مولانا نے مخلتف مقامات کا دورہ کرکے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور علم کی افادیت سے عوام کو آگاہ کیا۔ مولانا اپنی تقریروں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ' وہ قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں جن کے پاس علم نہیں ہوتا، خصوصاً ایک خاتون کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے کیوںکہ ماں کی گود میں بچے کی پرورش ہوتی ہے۔ اگر وہ گود ہی لا علم ہوتو آنے والی نسلیں جہالت کے اندھیروں میں ڈوب جائیں گی اور قومیں ختم ہوجائے گی۔ مولانا اکثر کہتے تھے کہ وہ رضا الہی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مولانا نے خواتین کی تعلیم کے لیے ملک بھر میں ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا بعد میں اسی طرز عمل پر دیگر تنظیموں نے بھی خواتین کی تعلیم کے لیے کام شروع کیا، میرا ماننا ہے کہ مولانا نے ہی اس کی پہل کی'۔
مولانا کی زندگی کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ نڈر شخصیت کے حامل انسان تھے کسی سے نہیں ڈرتے تھے، کیوں وہ اللہ سے ڈرا کرتے تھے صرف رضائے الہی کے لیے اپنی زندگی گزاری ہے، مولانا کلب صادق نے ایت اللہ عظمی سستانی ملاقات میں کہا کہ میں ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ سنی برادری بھی رہتے ہیں ان کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے، اس سوال پر ایت اللہ سستانی نے کہا کہ' آپ انہیں اپنا بھائی نہ سمجھ یے بلکہ انہیں اپنی جان سمجھیے۔ ایت اللہ سستانی کے اس مشورے پر مولانا نے نہ صرف قولاً عمل کیا بلکہ عملی طور پر اس کو ثابت کردکھایا۔'
مزید پڑھیں: 'مولانا کلب صادق کا بھارت ایران کے درمیان ثقافتی ربط قائم کرنے میں اہم کردار'
اہل سنت کے ساتھ نماز ادا کرنا، ان کی محفلوں میں جانا، انہیں اپنی جان سے زیادہ چاہنا، عملی میدان میں رضا الہی کو سامنے رکھا۔ وہ محدود وقت میں اپنے پیغام کو پہنچانے کی سعی کرتے رہے۔ جو صحیح ہے اسے فروغ دینے کی کوشش کی آج ان کے انتقال کے بعد سب یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا حق پرست انسان تھے۔'
جو سچا انسا ہوگا وہ کبھی ڈرے گا نہیں وہ ہمیشہ حق بات پہنچانے کے لیے عملی طور پر جد جہد کرتا رہے گا'۔