ETV Bharat / bharat

'جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی ملک کے مفاد میں ہے'

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ 2025 تک ہم 5 کھرب معیشت کو عبور کرسکیں گے یا نہیں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے لیکن بھارت 2030 تک 10 کھرب معیشت کے ہدف کو پورا کرنے جا رہا ہے۔

رام مادھو
رام مادھو
author img

By

Published : Jun 3, 2020, 8:24 PM IST

Updated : Jun 4, 2020, 11:27 AM IST

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو میں انہوں نے مختلف نکات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے بھارت کی معیشت سے لیکر مودی حکومت کی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا ہے، جموں و کشمیر کے تعلق سے بھی پارٹی کے نظریے وضاحت کی اور اپوزشن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کیا رہا؟

مودی حکومت 2.0 کے بہت بڑے بڑے کارنامے درج ہیں۔ مودی پارٹ 2 کے اس مختصر دور اقتدار میں بھی بہت ساری کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ ہماری حکومت نے بہت سارے اہم فیصلے لیے جن میں مسلم خواتین کے حق میں ایک ساتھ تین طلاق (طلاق ثلاثہ) کا قانون یا خواجہ سراؤں کے حق میں لایا گیا قانون بھی شامل ہے۔ دفعہ 370 ، 35A کو کلعدم کرنا، شہریت ترمیمی قانون نیز رام مندر کی تعمیر لیکن اپوزیشن انہیں کامیابیوں کے طور پر قبول نہیں کررہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کیا۔ قومی اتحاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کے 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا فیصلہ ہے یا یہ شہری ترمیمی ایکٹ کے تحت باہر سے آنے والے مہاجرین کو شہریت دینے کا معاملہ ہے اور ہندوستان کی معیشت کو 5 ٹریلین ڈالر کی طرف لے جانے کے لیے بہت سے اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔

کیا ہندوستان کورونا بحران کے باوجود اپنی پانچ کھرب ڈالر کی معیشت کو پورا کر سکے گا؟

ہم 5 کھرب معیشت کی طرف گامزن ہیں۔ صرف ایک چیز یہ ہے کہ کورونا کے سبب سست روی ضرور آئی ہے لیکن یہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ 2025 تک ہم 5 کھرب معیشت کو عبور کرسکیں گے یا نہیں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے۔ لیکن ہندوستان 2030 تک 10 کھرب معیشت کے ہدف کو پورا کرنے جا رہا ہے نہ کہ 5 کھرب ڈالر کی معیشت کے ہدف کو، درمیان میں رکاوٹ ضرور آئی ہے لیکن حکومت اپنے منصوبوں اور پالیسیوں میں تیزی لائے گی اور آنے والے برسوں میں اسے مکمل کر لیا جائے گا۔

سی اے اے یا دفعہ 370 میں لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوئے؟

اپوزیشن جن چیزوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے میں ان کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھی اقدام اٹھایا گیا ہے یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ یہ ملک کی سلامتی اور ملک کے اتحاد کے مفاد میں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم اچانک کچھ بھی نہیں لائے ہیں۔ ہماری پارٹی شروع سے ہی ان تمام چیزوں پر اپنا نظریہ واضح کرتی رہی ہے اور انھیں مدوں کے ساتھ ہم عوام کے سامنے آتے رہے ہیں، جہاں تک دفعہ 370 کا تعلق ہے آج ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا، ہم پچھلے 50 سالوں سے یہ کہہ رہے ہیں۔ ہم یہ باتیں ملک کے لوگوں کو کہتے رہے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم نے فیصلہ کیا ہے۔ لہذا حزب اختلاف کسی حد تک احتجاج کرسکتا ہے لیکن اس احتجاج کا یہ مطلب نہیں کہ عوام نے اس کی حمایت نہیں کی۔

جموں و کشمیر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

ویسے 370 کی دستبرداری کے بعد جموں کشمیر ایک مرکزی علاقہ ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی سب کچھ عام ہے لیکن پھر بھی جموں و کشمیر کے لیے ایک نئی ڈومیسائل پالیسی یعنی مقامی رہائشیوں کے لیے ایک نئی پالیسی مرکزی وزارت داخلہ نے منظور کی ہے اور اس پالیسی کے تحت وہاں کے لوگوں کو آگے بڑھانا اور ریاست کے نظام کو آگے بڑھانا ہے کیونکہ ڈومیسائل پالیسی سب سے پہلے بننا ہوتا ہے اور اب یہ ڈومیسائل پالیسی بن چکی ہے جس کے بعد تمام پالیسیاں منظور ہوجائیں گی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

واضح طور پر یہ ہم سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ جموں و کشمیر میں اچھی سرمایہ کاری اور ترقی ہو تاکہ وہاں کے لوگوں کو روزگار مل سکے۔ان کی زندگی گزارنے کے حالات اچھے ہونے چاہئیں اور ان کا مالی نظام بھی ٹھیک ہونا چاہئے۔ جموں و کشمیر اپنی معیشت کے لیے مکمل طور پر مرکز پر منحصر ہے لیکن یہ صورتحال تب ہی بدلے گی جب جموں و کشمیر خود کفیل ہوجائے گا وہاں صنعتوں اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں معمول کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے لیکن محبوبہ مفتی تاحال زیر حراست میں ہیں؟

کیا صرف دو افراد کے زیر انتظام ہی سیاسی سرگرمیاں چلتی ہیں جبکہ وہاں ہزاروں رہنما موجود ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنما موجود ہیں۔ کانگریس کا ایک بھی رہنما جیل میں نہیں ہے کانگریس وہاں سیاسی سرگرمیاں کیوں نہیں شروع کررہی ہے؟ این سی پی اور پی ڈی پی کے کچھ رہنماؤں کے علاوہ تمام رہنما آزاد ہیں۔ وہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرسکتے ہیں آج اس ریاست کی صورتحال یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو ریاست کے عوام نے قبول کرلیا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ وہ باہر آکر اپنی سیاسی سرگرمی شروع کریں اور ریاست کو ایک نئے نظام میں آگے بڑھایا جائے۔ سیاسی سرگرمی وہاں سے شروع ہونی چاہئے۔

اگرچہ عمر عبداللہ باہر ہیں لیکن ان کی پارٹی کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں کررہی ہے اور اندر ہی یہ الزامات لگائے جارہے ہیں کہ عمر عبد اللہ اور بی جے پی کے درمیان کچھ سیاسی معاہدے کے لیے بھی تیاریاں جاری ہیں۔

آج کے دور میں 24 قائدین جو جموں و کشمیر میں موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی صورتحال ٹھیک ہوجائیں گے وہ سب نکل آئیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی سب کو اپنی اپنی جماعتوں کے ذریعہ وہاں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنی ہوں گی۔ جہاں تک ہماری پارٹی کا تعلق ہے تو ہماری جماعت جموں میں سرگرم ہے، ہمارے کارکن متحرک ہیں۔ اپنے کام میں مصروف ہیں یہاں تک کہ وادی کشمیر کے اندر بھی آج ہم اس ریاست کے لوگوں میں ایک سینٹر پوائنٹ کے طور پر سرگرمیاں چلانے کی کوشش کریں گے۔ وہا کے لوگوں کو اس طرح سے نیشنل پارٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ایک قومی پارٹی ہے اور ہم لوگوں میں بھی ان کا مرکز بننے کی کوشش کریں گے اور اس بار ہمارے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔

چین کی سرحد پر تنازعہ کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

ہندوستان اور چین کے مابین 3500 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ یہاں کا کچھ علاقہ ہمیشہ تناؤ کا شکار رہا ہے۔ اگر ہم پچھلے 10 سالوں کی بات کریں تو چین کی طرف سے ہی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کم از کم ایک ہزار بار کی گئی ہوگی اور اب بھی چین زیادہ جارحانہ دکھائی دے رہا ہے۔لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت بہت ساری قسم کی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں، بہت سی خبریں آرہی ہیں، سوشل میڈیا پر بھی خبریں آرہی ہیں۔جب تک حکومت کچھ نہ کہے ہمیں ان خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ وہ 25 کلومیٹر کی حد میں آیا ہے۔ اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ ہماری پوری طرح سے نگرانی کی جاتی ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی سرحد میں ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔ اب جب سرحد کے بارے میں تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو یقینی طور پر کوشش کی جاتی ہے کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے کوئی حل تلاش کریں لیکن ہم زمین سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

کورونا بحران میں کس ریاست کا ماڈل سب سے اچھا ہے؟

کورونا کے خلاف آسام کا ماڈل کیرل ماڈل سے بہتر ہےجہاں تک آسام کا تعلق ہے ہماری حکومت نے کووڈ کے معاملے میں بہت عمدہ کام کیا ہے۔لوگ کیرالہ ماڈل کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن اصل میں آسام ماڈل پر بات ہونی چاہئے۔ اس کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔آسام میں ایک لاکھ افراد کا ٹیسٹ کیا گیا ہے یہاں تک کہ کیرلہ میں بھی 50 ہزار افراد کا بھی ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ تو اچھی گورننس ہماری ہے ، پھر لوگ ووٹ دیں گے۔

بی جے پی نے مہاجر مزدوروں کے مسئلے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جس کی وجہ سے حالت اتنی زیادہ خراب ہوگئی؟

لاک ڈاؤن کے تناظر میں جو بھی باتیں کی جارہی ہیں وہ بے معنی ہیں اور مضحکہ خیز ہیں، اس وقت لاک ڈاؤن فوری طور پر لازمی تھا اگر فورا لاک ڈاون نا کرتے تو ہندوستان کی حالت امریکہ اور اٹلی سے بھی بدتر ہوتی۔مہاجر مزدوروں کے تعلق سے ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی کہ وہ مہاجر مزدور کو یقین دلاتے کہ ہم آپ کے ڈر و خوف کو ختم کردیں گے۔ ویسے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بھی اسے پورا کیا ہے اور این جی او نے بھی کافی مدد کی ہے

قابل غور بات یہ ہے کہ ہندوستان میں آٹھ کروڑ مہاجر مزدور ہیں۔ ان میں سے صرف 70-90 لاکھ افراد باہر نکلے، وہ باہر نہیں آئیں یہ ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ پریشانی اور خوف کے سبب باہر بکل پڑے۔لیکن جونہی یہ تعداد بڑھی ہم نے ٹرین کا انتظام کیا اور ٹرین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ آپ مجھے بتائیں اگر ہم یہ کہتے کہ ہم چار دن کے بعد لاک ڈاؤن کریں گے تو لوگوں میں بے چینی زیادہ بڑھ جاتی جس کی وجہ سے لوگ کافی زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ادھر ادھر جانے لگتے تو کیا ہم اسے سنبھال سکتے تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو میں انہوں نے مختلف نکات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے بھارت کی معیشت سے لیکر مودی حکومت کی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا ہے، جموں و کشمیر کے تعلق سے بھی پارٹی کے نظریے وضاحت کی اور اپوزشن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کیا رہا؟

مودی حکومت 2.0 کے بہت بڑے بڑے کارنامے درج ہیں۔ مودی پارٹ 2 کے اس مختصر دور اقتدار میں بھی بہت ساری کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ ہماری حکومت نے بہت سارے اہم فیصلے لیے جن میں مسلم خواتین کے حق میں ایک ساتھ تین طلاق (طلاق ثلاثہ) کا قانون یا خواجہ سراؤں کے حق میں لایا گیا قانون بھی شامل ہے۔ دفعہ 370 ، 35A کو کلعدم کرنا، شہریت ترمیمی قانون نیز رام مندر کی تعمیر لیکن اپوزیشن انہیں کامیابیوں کے طور پر قبول نہیں کررہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کیا۔ قومی اتحاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کے 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا فیصلہ ہے یا یہ شہری ترمیمی ایکٹ کے تحت باہر سے آنے والے مہاجرین کو شہریت دینے کا معاملہ ہے اور ہندوستان کی معیشت کو 5 ٹریلین ڈالر کی طرف لے جانے کے لیے بہت سے اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔

کیا ہندوستان کورونا بحران کے باوجود اپنی پانچ کھرب ڈالر کی معیشت کو پورا کر سکے گا؟

ہم 5 کھرب معیشت کی طرف گامزن ہیں۔ صرف ایک چیز یہ ہے کہ کورونا کے سبب سست روی ضرور آئی ہے لیکن یہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ 2025 تک ہم 5 کھرب معیشت کو عبور کرسکیں گے یا نہیں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے۔ لیکن ہندوستان 2030 تک 10 کھرب معیشت کے ہدف کو پورا کرنے جا رہا ہے نہ کہ 5 کھرب ڈالر کی معیشت کے ہدف کو، درمیان میں رکاوٹ ضرور آئی ہے لیکن حکومت اپنے منصوبوں اور پالیسیوں میں تیزی لائے گی اور آنے والے برسوں میں اسے مکمل کر لیا جائے گا۔

سی اے اے یا دفعہ 370 میں لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوئے؟

اپوزیشن جن چیزوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے میں ان کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھی اقدام اٹھایا گیا ہے یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ یہ ملک کی سلامتی اور ملک کے اتحاد کے مفاد میں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم اچانک کچھ بھی نہیں لائے ہیں۔ ہماری پارٹی شروع سے ہی ان تمام چیزوں پر اپنا نظریہ واضح کرتی رہی ہے اور انھیں مدوں کے ساتھ ہم عوام کے سامنے آتے رہے ہیں، جہاں تک دفعہ 370 کا تعلق ہے آج ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا، ہم پچھلے 50 سالوں سے یہ کہہ رہے ہیں۔ ہم یہ باتیں ملک کے لوگوں کو کہتے رہے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم نے فیصلہ کیا ہے۔ لہذا حزب اختلاف کسی حد تک احتجاج کرسکتا ہے لیکن اس احتجاج کا یہ مطلب نہیں کہ عوام نے اس کی حمایت نہیں کی۔

جموں و کشمیر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

ویسے 370 کی دستبرداری کے بعد جموں کشمیر ایک مرکزی علاقہ ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی سب کچھ عام ہے لیکن پھر بھی جموں و کشمیر کے لیے ایک نئی ڈومیسائل پالیسی یعنی مقامی رہائشیوں کے لیے ایک نئی پالیسی مرکزی وزارت داخلہ نے منظور کی ہے اور اس پالیسی کے تحت وہاں کے لوگوں کو آگے بڑھانا اور ریاست کے نظام کو آگے بڑھانا ہے کیونکہ ڈومیسائل پالیسی سب سے پہلے بننا ہوتا ہے اور اب یہ ڈومیسائل پالیسی بن چکی ہے جس کے بعد تمام پالیسیاں منظور ہوجائیں گی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

واضح طور پر یہ ہم سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ جموں و کشمیر میں اچھی سرمایہ کاری اور ترقی ہو تاکہ وہاں کے لوگوں کو روزگار مل سکے۔ان کی زندگی گزارنے کے حالات اچھے ہونے چاہئیں اور ان کا مالی نظام بھی ٹھیک ہونا چاہئے۔ جموں و کشمیر اپنی معیشت کے لیے مکمل طور پر مرکز پر منحصر ہے لیکن یہ صورتحال تب ہی بدلے گی جب جموں و کشمیر خود کفیل ہوجائے گا وہاں صنعتوں اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں معمول کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے لیکن محبوبہ مفتی تاحال زیر حراست میں ہیں؟

کیا صرف دو افراد کے زیر انتظام ہی سیاسی سرگرمیاں چلتی ہیں جبکہ وہاں ہزاروں رہنما موجود ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنما موجود ہیں۔ کانگریس کا ایک بھی رہنما جیل میں نہیں ہے کانگریس وہاں سیاسی سرگرمیاں کیوں نہیں شروع کررہی ہے؟ این سی پی اور پی ڈی پی کے کچھ رہنماؤں کے علاوہ تمام رہنما آزاد ہیں۔ وہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرسکتے ہیں آج اس ریاست کی صورتحال یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو ریاست کے عوام نے قبول کرلیا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ وہ باہر آکر اپنی سیاسی سرگرمی شروع کریں اور ریاست کو ایک نئے نظام میں آگے بڑھایا جائے۔ سیاسی سرگرمی وہاں سے شروع ہونی چاہئے۔

اگرچہ عمر عبداللہ باہر ہیں لیکن ان کی پارٹی کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں کررہی ہے اور اندر ہی یہ الزامات لگائے جارہے ہیں کہ عمر عبد اللہ اور بی جے پی کے درمیان کچھ سیاسی معاہدے کے لیے بھی تیاریاں جاری ہیں۔

آج کے دور میں 24 قائدین جو جموں و کشمیر میں موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی صورتحال ٹھیک ہوجائیں گے وہ سب نکل آئیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی سب کو اپنی اپنی جماعتوں کے ذریعہ وہاں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنی ہوں گی۔ جہاں تک ہماری پارٹی کا تعلق ہے تو ہماری جماعت جموں میں سرگرم ہے، ہمارے کارکن متحرک ہیں۔ اپنے کام میں مصروف ہیں یہاں تک کہ وادی کشمیر کے اندر بھی آج ہم اس ریاست کے لوگوں میں ایک سینٹر پوائنٹ کے طور پر سرگرمیاں چلانے کی کوشش کریں گے۔ وہا کے لوگوں کو اس طرح سے نیشنل پارٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ایک قومی پارٹی ہے اور ہم لوگوں میں بھی ان کا مرکز بننے کی کوشش کریں گے اور اس بار ہمارے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔

چین کی سرحد پر تنازعہ کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

ہندوستان اور چین کے مابین 3500 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ یہاں کا کچھ علاقہ ہمیشہ تناؤ کا شکار رہا ہے۔ اگر ہم پچھلے 10 سالوں کی بات کریں تو چین کی طرف سے ہی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کم از کم ایک ہزار بار کی گئی ہوگی اور اب بھی چین زیادہ جارحانہ دکھائی دے رہا ہے۔لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت بہت ساری قسم کی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں، بہت سی خبریں آرہی ہیں، سوشل میڈیا پر بھی خبریں آرہی ہیں۔جب تک حکومت کچھ نہ کہے ہمیں ان خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ وہ 25 کلومیٹر کی حد میں آیا ہے۔ اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ ہماری پوری طرح سے نگرانی کی جاتی ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی سرحد میں ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔ اب جب سرحد کے بارے میں تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو یقینی طور پر کوشش کی جاتی ہے کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے کوئی حل تلاش کریں لیکن ہم زمین سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

کورونا بحران میں کس ریاست کا ماڈل سب سے اچھا ہے؟

کورونا کے خلاف آسام کا ماڈل کیرل ماڈل سے بہتر ہےجہاں تک آسام کا تعلق ہے ہماری حکومت نے کووڈ کے معاملے میں بہت عمدہ کام کیا ہے۔لوگ کیرالہ ماڈل کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن اصل میں آسام ماڈل پر بات ہونی چاہئے۔ اس کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔آسام میں ایک لاکھ افراد کا ٹیسٹ کیا گیا ہے یہاں تک کہ کیرلہ میں بھی 50 ہزار افراد کا بھی ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ تو اچھی گورننس ہماری ہے ، پھر لوگ ووٹ دیں گے۔

بی جے پی نے مہاجر مزدوروں کے مسئلے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جس کی وجہ سے حالت اتنی زیادہ خراب ہوگئی؟

لاک ڈاؤن کے تناظر میں جو بھی باتیں کی جارہی ہیں وہ بے معنی ہیں اور مضحکہ خیز ہیں، اس وقت لاک ڈاؤن فوری طور پر لازمی تھا اگر فورا لاک ڈاون نا کرتے تو ہندوستان کی حالت امریکہ اور اٹلی سے بھی بدتر ہوتی۔مہاجر مزدوروں کے تعلق سے ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی کہ وہ مہاجر مزدور کو یقین دلاتے کہ ہم آپ کے ڈر و خوف کو ختم کردیں گے۔ ویسے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بھی اسے پورا کیا ہے اور این جی او نے بھی کافی مدد کی ہے

قابل غور بات یہ ہے کہ ہندوستان میں آٹھ کروڑ مہاجر مزدور ہیں۔ ان میں سے صرف 70-90 لاکھ افراد باہر نکلے، وہ باہر نہیں آئیں یہ ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ پریشانی اور خوف کے سبب باہر بکل پڑے۔لیکن جونہی یہ تعداد بڑھی ہم نے ٹرین کا انتظام کیا اور ٹرین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ آپ مجھے بتائیں اگر ہم یہ کہتے کہ ہم چار دن کے بعد لاک ڈاؤن کریں گے تو لوگوں میں بے چینی زیادہ بڑھ جاتی جس کی وجہ سے لوگ کافی زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ادھر ادھر جانے لگتے تو کیا ہم اسے سنبھال سکتے تھے۔

Last Updated : Jun 4, 2020, 11:27 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.