سابق ایئر وائس مارشل کپل کاک اور میجر جنرل اشوک مہتا (ریٹائرڈ) سمیت چھ درخواست گزاروں نے جموں و کشمیر کی تنظیم نو بل 2019 اور دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے رجوع کیا۔
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم جموں و کشمیر کے ریاستی قوانین کے خلاف ہیں۔ ان اصولوں کی خلاف روزی کرتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق ' ان ترامیم کو لے کر جموں و کشمیر کے عوام کی طرف سے کوئی تصدیق یا اجازت نہیں لی گئی تھی جو قانوں کے مطابق آئینی طور پر لازمی تھا۔'
مزید پڑھیں : 'فوج کو غیر جانبدارانہ تفتیش کرنی چاہیے'
درخواست گزاروں میں وزارت داخلہ کے گروپ آف انٹلوکٹرز کے سابق رکن رادھا کمار (11-2010) اور جموں و کشمیر کیڈر سے تعلق رکھنے والے سابق آئی اے ایس افسر ہندل حیدر طیب جی بھی شامل ہیں۔
ان درخوست گزاروں میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے سابق وزراء اور نوکر شاہ افسران شامل ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ برائے دفاعی مطالعات و تجزیہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ایئر وائس مارشل کپل کاک (ریٹائرڈ) بھی درخوست گزاروں میں شامل ہیں۔
میجر جنرل (ریٹائرڈ) اشوک کمار مہتا، امیتابھا پانڈے ، آئی اے ایس کے پنجاب کیڈر کے سابق ممبر اور سنہ2011 میں مرکزی سکریٹری برائے داخلہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے کیرالہ کیڈر کے سابق آئی اے ایس افسر گوپال پیلی بھی تھے، جنھوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر تنظیم نو بل 2019 کو بھی منظور کیا گیا۔
ریاست میں دو ہفتوں سے مواضلات کی مکمل ناکہ بندی کی گئی ہے۔ جہاں ٹیلی مواصلات کی کوئی سروس نہیں ہے۔
بتادیں کہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت سیاستدانوں کو نظربند رکھا گیا ہے۔ ہفتے کے روز شہر میں لوگوں کی نقل وحرکت پر جزوی طور پر پابندیاں ختم کردی گئیں ہے اور محدود طور پر لینڈ لائن خدمات بھی بحال کردی گئیں۔