ریاست اترپردیش کے شہر بنارس کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی جانب سے گذشہ دنوں ایک پندرہ روزہ تحقیقی قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا، جسکا اختتام کل بتاریخ 3 اکتوبر کو ہوا۔ تقریب کی ابتدا حسب روایت کل گیت سے کی گئی۔
اس موقع پر اردو کے ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ تابش نے شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے پندرہ روزہ قومی ورکشاپ کے اختتامی اجلاس میں کہا کہ 'ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ صارفیت سے مغلوبیت ہے۔ ہمارے ذہن و فکر نے اس قدر صارفیت کے اثرات قبول کیے ہیں کہ اب بازار اور فیشن کا قبضہ ہمارے گھروں پر ہو چکا ہے، سچ اور جھوٹ کے درمیان فاصلے مٹ چکے ہیں اور اقدار تہس نہس ہو رہے ہیں، ایسے میں ادب اور شاعری کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، تحقیق بذات خود ایک مشکل عمل ہے جہاں ہر قدم پر آپ کے علم، محنت شاقہ اور جدوجہد کا امتحان ہوتا ہے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ عہد میں زبان و الفاظ کی حرمت اس لیے پامال ہورہی ہے کہ جھوٹ اور غلط بیانی پر اشتہار کا ملمع چڑھا دیا جاتا ہے۔ ادب و فن بھی ہمارے عہد کے محض فکری رویوں سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے اثرات بھی قبول کرتا ہے۔ اس ورکشاپ میں شرکاء نے سچ کی تلاش کو سیکھا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر آر پی پاٹھک ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنس بی ایچ یو نے کہا کے موجودہ دور میں تحقیق کا معیار اطمنان بخش نہیں اس لیے کہ اساتذہ اور اسکالرز دونوں تساہلی کے شکار ہیں۔ تحقیق سے بے رغبتی دونوں میں پائی جاتی ہے۔
شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے ایک اہم موضوع پر دو ہفتے کا ورکشاپ کراکے ہماری توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے جو اکادمی کی دنیا میں لازمی ہے۔
مہمان اعزازی کے طور پر تشریف لائے پروفیسر اشفاق احمد صدر شعبہ عربی بنارس ہندو یونیورسٹی نے جامعاتی تحقیق میں سناپسس کی ضرورت اور اہمیت نیز اس کے طریقہ کار پر پُرمغز روشنی ڈالی۔
اس موقع پر رانچی یونیورسٹی سے آئے شعبہ صدر اردو ڈاکٹر منظر حسین نے اردو میں تحقیق کی صورتحال پر اظہار خیال کیا۔
استقبال پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صدر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے کیا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر مشرف علی اور اظہار تشکر کی رسم محترمہ رقیہ بانو نے ادا کی۔