حیدرآباد شہر میں مختلف طرح کی چھوٹی بڑی تاریخی عمارتیں موجود ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ ان تاریخی عمارتوں پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں تاریخی وراثت کی بے حد اہمیت ہوتی ہے۔ نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی ان وراثتوں کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ تاہم بھارت میں تاریخی وراثتوں کی حفاظت کے تئیں حکومت اور عوام دونوں کا رویہ مایوس کن ہے۔
حیدرآبار کے پرانے شہر مغل پورہ میں ایک تاریخی مقبرہ ہے، جسے قطب شاہی کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا، اس میں بیدر کے کلیانی نواب مدفون ہیں۔
مقبرے کے اندر نواب اور ان کی اہلیہ کی قبریں ہیں، قبروں کی حالت بہتر ہے، لیکن مقبرے کی چھت اور درو دیوار خستہ حالی کا شکار ہیں۔
مقامی شخص محمود علی کا کہنا ہے کہ قبضہ کرنے والے لوگ سیاسی رسوخ کی وجہ سے عدالت کے احکامات کے باوجود اس مقام سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
قبضے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ نے بھی اس کی تزئین کے اعلان کے بعد اپنا ارادہ ترک کردیا ہے۔
اس لیے محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ اس تاریخی عمارت کو لوگوں کے قبضے سے آزاد کرائے اور اس کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھے۔