ETV Bharat / bharat

بہار انتخابات میں پیسے اور زورآوروں کا غلبہ: رپورٹ

author img

By

Published : Oct 10, 2020, 12:43 PM IST

بہار کے انتخابات میں پیسوں کے ساتھ ساتھ طاقت کے استعمال نے بھی بڑا کردارادا کیا ہے، اگرامیدوار پرفوجداری کے مقدمات کا الزام ہوتا ہے تو پھر اس کے جیتنے کے امکانات 15 فیصد ہوجاتے ہیں۔

بہار انتخابات میں پیسے اور زورآوروں کا غلبہ: رپورٹ
بہار انتخابات میں پیسے اور زورآوروں کا غلبہ: رپورٹ

اگر کسی واضح شبیہ کا امیدوار میدان میں آجاتا ہے تو جیت کے امکانات صرف پانچ فیصد ہی رہ جاتے ہیں، اگر امیدوار داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ پیسے والا ہو تو جیتنے کے امکانات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جیس کے بعد املاک بھی دوگنا ہوجاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سیاسی دنیا میں، جرم کے ساتھ تعلیم کا کوئی معنی نہیں ہے، جو جتنا تعلیم یافتہ ہے ان پر الزامات اور پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

جمعہ کو جاری کر دہ الیکشن واچ اور اے ڈی آر کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست بہار میں سنہ 2005 کے بعد سے اب تک ہوئے انتخابات کے امیدواروں اور جیت حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی اور پارلیمان کے تجزیے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے یہ اس کا لب و لباب یہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2005 سے اب تک 10،785 امیدواروں نے انتخابات لڑے ہیں جن کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان امیدواروں میں 30 فیصد وہ تھے جنہوں نے اپنے اوپر مجرمانہ الزامات کا اعلان کیا۔ ان داغدار لوگوں میں سے 20 فیصد امیدوار ایسے ہیں جن پر سنگین جرم کے الزامات عائد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جیت حاصل کرنے کے بعد 820 اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 57 فیصد پر مجرمانہ الزامات تھے، جن میں سے 36 فیصد پر سنگین جرم کے الزامات ہیں، یعنی انہیں امیدواروں نے زیادہ کامیابی حاصل کی جن پر جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

اسی طرح اگر امیدواروں کے اثاثوں اور جیتنے والے کے اثاثوں کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں کے درمیان دو گنا فرق ہے۔ تمام امیدواروں کے پاس اوسطا 1.09 کروڑ کے اثاثے تھے۔ جیت کے بعد جب اراکین پارلیمان اور ایم ایل اے کے اثاثوں کا ان کے اعلامیے کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا تو اوسطا اثاثے بڑھ کر 2.25 کروڑ ہوگئے۔

تاہم، اس عرصے کے دوران بہار کی فی کس آمدنی میں چھ گنا اضافہ بھی ہوا ہے۔ 2005 میں فی کس آمدنی 7813 روپے تھی جبکہ موجودہ سال میں یہ 47 ہزار 541 روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا عظیم اتحاد کے رہنما ایک ساتھ نظر آئیں گے؟

تعلیم کا جرم کے ساتھ آپس میں موازنہ کرنے سے نتائج مزید دلچسپ برآمد ہوئے ہیں۔ انتخابی میدان میں اترے گریجویٹ یا اس سے اعلی تعلیم یافتہ امیدواروں میں 33 فیصد امیدوار پر فوجداری کے مقدمات رہی ہیں، ان میں سے 21 فیصد تعلیم یافتہ امیدواروں پر سنگین مجرمانہ معاملات کے الزامات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے 29 فیصد امیدوار ایسے ہیں، جن پر مجرمانہ واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ جبکہ سنگین مجرمانہ واقعات کے الزامات جھیل رہے امیدواروں کی تعداد 20 فیصد ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق یہ واضح ہے کہ سیاست کا تعلق براہ راست پیسوں اور جرم سے ہے۔ نیز تعلیم کا جرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جس نے جتنی زیادہ تعلیم حاصل کی اتنا ہی اس پر جرم کا الزام لگایا گیا۔

اگر کسی واضح شبیہ کا امیدوار میدان میں آجاتا ہے تو جیت کے امکانات صرف پانچ فیصد ہی رہ جاتے ہیں، اگر امیدوار داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ پیسے والا ہو تو جیتنے کے امکانات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جیس کے بعد املاک بھی دوگنا ہوجاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سیاسی دنیا میں، جرم کے ساتھ تعلیم کا کوئی معنی نہیں ہے، جو جتنا تعلیم یافتہ ہے ان پر الزامات اور پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

جمعہ کو جاری کر دہ الیکشن واچ اور اے ڈی آر کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست بہار میں سنہ 2005 کے بعد سے اب تک ہوئے انتخابات کے امیدواروں اور جیت حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی اور پارلیمان کے تجزیے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے یہ اس کا لب و لباب یہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2005 سے اب تک 10،785 امیدواروں نے انتخابات لڑے ہیں جن کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان امیدواروں میں 30 فیصد وہ تھے جنہوں نے اپنے اوپر مجرمانہ الزامات کا اعلان کیا۔ ان داغدار لوگوں میں سے 20 فیصد امیدوار ایسے ہیں جن پر سنگین جرم کے الزامات عائد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جیت حاصل کرنے کے بعد 820 اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 57 فیصد پر مجرمانہ الزامات تھے، جن میں سے 36 فیصد پر سنگین جرم کے الزامات ہیں، یعنی انہیں امیدواروں نے زیادہ کامیابی حاصل کی جن پر جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

اسی طرح اگر امیدواروں کے اثاثوں اور جیتنے والے کے اثاثوں کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں کے درمیان دو گنا فرق ہے۔ تمام امیدواروں کے پاس اوسطا 1.09 کروڑ کے اثاثے تھے۔ جیت کے بعد جب اراکین پارلیمان اور ایم ایل اے کے اثاثوں کا ان کے اعلامیے کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا تو اوسطا اثاثے بڑھ کر 2.25 کروڑ ہوگئے۔

تاہم، اس عرصے کے دوران بہار کی فی کس آمدنی میں چھ گنا اضافہ بھی ہوا ہے۔ 2005 میں فی کس آمدنی 7813 روپے تھی جبکہ موجودہ سال میں یہ 47 ہزار 541 روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا عظیم اتحاد کے رہنما ایک ساتھ نظر آئیں گے؟

تعلیم کا جرم کے ساتھ آپس میں موازنہ کرنے سے نتائج مزید دلچسپ برآمد ہوئے ہیں۔ انتخابی میدان میں اترے گریجویٹ یا اس سے اعلی تعلیم یافتہ امیدواروں میں 33 فیصد امیدوار پر فوجداری کے مقدمات رہی ہیں، ان میں سے 21 فیصد تعلیم یافتہ امیدواروں پر سنگین مجرمانہ معاملات کے الزامات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے 29 فیصد امیدوار ایسے ہیں، جن پر مجرمانہ واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ جبکہ سنگین مجرمانہ واقعات کے الزامات جھیل رہے امیدواروں کی تعداد 20 فیصد ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق یہ واضح ہے کہ سیاست کا تعلق براہ راست پیسوں اور جرم سے ہے۔ نیز تعلیم کا جرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جس نے جتنی زیادہ تعلیم حاصل کی اتنا ہی اس پر جرم کا الزام لگایا گیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.