یہ ہدف مقررہ معیاد سے چار سال پہلے ہی پورا ہوچکا ہے۔لیکن یہ صرف صلاحیت کا ہدف مقرر کرنے تک محدود ہے، عملی طور پر انسٹالیشن کا عمل انتہائی سست ہے۔ 2015ء میںسولر توانائی کے ہدف میںمزید اضافہ کرکے اسے2022تک ایک سو گیگا واٹ (بشمول چھتوں پر نصب شدہ سولر سے 40گیگا واٹ حاصل کرنے کا ہدف )تک پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کے لئے ایک سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بھارت میں سولر پلانٹس قائم کرنے والوں کو زمین مہیا کرنے کے لئے 42سولر پارکس کوقائم کیا گیا ہے ۔26مئی 2014ء کو بھارت میں سولر توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 2,650میگاواٹ تھی ۔ اس میں 31جنوری 2018تک آٹھ گنا اضافہ ہوا اور صلاحیت کا یہ ہدف20گیگا واٹ سے زیادہ تک پہنچ گئی۔
سال 16-2015 میں شمسی صلاحیت کے ہدف میں 3گیگاواٹ کا اضافہ کیا گیا۔ سال 2016.17 میں مزید 5گیگاواٹ اور 2017.18میںمزید 10گیگاواٹ سے زیادہ صلاحیت کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کوئلہ سے حاصل ہونے والی توانائی کے مقابلے میں سولر بجلی کی قیمتوں میں18فیصد کی کمی ہوگئی۔
ستمبر2019ء تک بھارت نے کامیابی کے ساتھ 82,580میگاواٹ قابل تجدید توانائی انسٹال کی جبکہ مزید 31,150میگا واٹ کی انسٹالیشن کا عمل فی الوقت مختلف مراحل سے گزررہا ہے۔ معاشی صورتحال میں ان دنوں جاری گراوٹ اور بجلی کی ڈیمانڈ کے نتیجے میں قابل تجدید توانائی کی صنعت شدید دبائو کا شکار ہے اور یہ خسارے سے دوچار ہورہی ہے۔
ستمبرمیں نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کلائی میٹ ایکشن سمٹ میں وزیر اعظم مودی نے یقین دلایا کہ بھارت 2022تک 450گیگاواٹ جدید توانائی کی پیداوار کا اہل ہوگا۔یہ کہہ کر انہوں نے خود اپنی ہی حکومت کی جانب سے 175گیگاواٹ کا وہ ہدف دوگنا کردیا ، جسے اس نے 2018ء میں مقرر کیا تھا۔ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اگر ہم گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے میں سنجیدہ ہیں تو ہم فی الوقت مطلوبہ اقدامات نہیں کرپارہے ہیں۔ کیونکہ قابل تجدید توانائی کی صنعت ، جس سے مودی اُمید لگائے بیٹھے میں ناکام ہورہی ہے۔
بھارت میں فی الوقت حاصل ہورہی گرین انرجی 65گیگا واٹ ہے۔جبکہ توقع یہ کی گئی تھی کہ دسمبر2022تک یہ ایک سو گیگا واٹ تک ہوگی ۔ بلا شبہ یہ حکومت کے اپنے ہدف یعنی 175گیگا واٹ سے کم ہے اور وزیر اعظم کی جانب سے اقوام متحدہ کی کلائی میٹ ایکشن سمٹ اعلان کردہ 450گیگا واٹ سے بہت پیچھے ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کوئلہ سے پیدا ہونی والی توانائی کی طلب کم ہورہی ہے ۔جبکہ مقامی بازار سے قدرتی گیس بھی غائب ہورہا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ہر کوئی گرین انرجی کے حصول کا خواہاں ہے۔اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔لیکن پیداوار کی کمی کی وجہ سے اُمیدیں دم توڑ رہی ہیںاور یہ شعبہ بند ہوجانے کے درپے ہے۔
بھارت میں سولر توانائی کی قیمت پوری دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔لیکن اس کے باوجود ریاستی حکومتیں اس سے استفادہ کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ سولر انرجی کی خطرناک حد تک کم قیمتوں کا خمیازہ پیداواری شعبے سے جڑے لوگوں کو اٹھانا پڑرہا ہے اور اسکی وجہ سے معیار پر پورے نہیں اتر پارہے ہیں۔ بعض ریاستی پاور تقسیم کرنے والی کمپنیوں پر سال بھر سے قابل ادائیگی بلیں التوا میں پڑی ہوئی ہیں۔
آندھرا پردیش میں سولر انرجی پیدا کرنے والی کمپنیاںشدید بحران سے دوچار ہوگئی ہیں۔ریاستی حکومت نے انہیں دو ناپسندیدہ آپشن دیئے ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یا تو وہ اُن قیمتوں میں کمی کریں ، جو پچھلی حکومتوں نے منظور کرلی تھیں یا پھر پیداوار کو روک دیں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کا سلسلہ رک چکا ہے۔
خود مختار پاؤر ڈیولپرس اس تنزلی کا اعتراف کرنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں حقائق بالکل عیاں ہیں۔ مرکز اور ریاستی سرکاروں کی جانب سے جو 64گیگاواٹ پیدا کرنے کے لئے مالی سال 2019ء میں جو بولی لگائی تھی ، اس کا مثبت جواب نہیں ملا۔
ریاستیں چاہتی ہیں کہ انہیں 2.50سے 2.80روپے فی یونٹ کی قیمت سے یہ بجلی فراہم ہو۔ اور اسکی وجہ سے خودمختار پائور ڈیولپرس نہ ہی اپنے منافع میں اضافہ کرپارہے ہیں اور نہ ہی معیاری نتائج پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
گزشتہ چار ماہ کے دوران 11ونڈ اورسولرپروجیکٹوں کی بولی لگائی گئی ۔ ان میں سے صرف 2 پروجیکٹوں کے لئے بولیاں کامیاب ہوئیں۔اس شعبے کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔اس وجہ سے بولی کے عمل کی ناکامی جاری رہ سکتی ہے۔یہاں تک کہ جو پروجیکٹس شروع ہوئے تھے، ان کے کام کی رفتار بھی دھیمی پڑ چکی ہے۔
اگر موجوہ معاشی سستی جاری رہی تو اس کے اثرات نہ صر ف قابل تجدید توانائی کے شعبہ پربلکہ ہر طرح کی توانائی کی ترسیل کے منصوبوں پر مرتب ہونگے۔اگر اقتصادی حالت بہتر نہ ہوئی تو ہم بہتر توانائی فراہم کرنے پر توجہ کھو دیں گے اور اس شعبے کو ترجیحی مقام حاصل نہیں رہے گا۔اس کے موجودہ پائور سیکٹر کے مفادات پرسنگین اثرات پڑیں گے۔
سولر لیڈر بورڈ میں شامل ممالک کے پاس سولرتوانائی پیدا کرنے اور اسکی ترسیل کا موثر طریقہ کار ہے ۔ جو ں جوں ہمارے ترسیلی نظام میں سستی پیدا ہوتی جائے گی ، اس شعبے میں ہمارا انحصار بیرونی ممالک پر بڑھے گا۔
جرمنی کو اس کی مطلوبہ بجلی کاتقریباً46فی صد حصہ قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہورہا ہے۔یہاں تک کہ چین 26فی صد بجلی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کررہا ہے۔مستقبل قریب میں دنیا میں انرجی مکمل طور سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل ہوگی اور بھارت اس معاملے میں سب سے پیچھے ہوگا۔
جولائی میں آندھرا پردیش کے نو منتخب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سولر اور ونڈ توانائی پیدا کرنے والے خود مختار پائور ڈیولپرس کو قیمتیں کم کرنی پڑیں گی ۔برعکس صورت میں وہ ان کے ساتھ طے پائے گئے طویل المدتی پائور خریدنے کے معاہدے منسوخ تصور کریں۔ اس دھمکی کی شدت کا اندازہ لگائیں۔
یہ ریاست 7.7گیگا واٹ بجلی ،یعنیبھارت میں پیدا کی جانے والی قابل تجدید توانائی کا 9.6فیصد خریدتی ہے۔گجرات کی طرح آندھرا پردیش نے بھی صنعتی ترقی کرچکا ہے ، جب حیدر آباد کے ایک گروپ ، جسکی سرمایہ کاری6بلین ڈالر ہے اور جسے ابو دابی انوسٹمنٹ اتھارٹی اور سنگا پور کی جی آئی سی کی پشت پناہی حاصل ہے ، کو سب سے پہلے یہاں سولر انرجی کا پلانٹ نصب کرنے کی جانب راغب کیا گیا تھا۔
اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آندھرا پردیش کی حکومت کے متذکرہ فیصلے کے نتیجے میں یہاں 5,2گیگا واٹ بجلی پیداوار اور سپلائی کو متاثر کرسکتی ہے اور متعلقین کو 21ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوگا۔وہ بینکوں کی 10ہزار 6سو کروڑ روپے کی ادائیگی سے قاصر ہونگے اور قر ض نادہندگان کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔
مرکزی سرکار کو اس ضمن میں مذاکرات میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ریاست کے پائور سیکٹر میں بدحالی کی وجہ سے ریاستی الیکٹرک سٹی بورڈ دیوالیہ ہوچکا ہے۔ریاستی حکومت پانچ فی صد قابل تجدید پاور خریدنے کی پابند ہے۔
2017ء میں قابل تجدید توانائی کے پروجیکٹس کی بولی لگائے جانے سے پہلے ریاستوں نے ڈیولپرس کے ساتھ قیمتیں طے کی ہوئی ہیں۔ جولائی 2019ء کے سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ریاستوں کے پاس قابل تجدید توانائی کمپنیوں کے 9,735.62کروڑ روپے کی خطیر رقم قابل ادائیگی ہے۔
اس میں سے 6500کروڑ صرف آندھرا پردیس ، تامل ناڈواور تلنگانہ ریاستوں کے پاس ہیں۔آندھرا پردیش کے اداروں نے پچھلے 13مہینوں سے ادائیگیاں نہیں کی ہیں۔ہم نے اب تک قابل تجدید توانائی کے سیکٹر سے صرف اضطراب حاصل کیا ہے کیونکہ ادائیگیاں نہیں ہورہی ہیں۔لیکن اس شعبے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ، اگر یہ خامیاں دور کی جائیں۔
دوسری ریاستوں میں بھی پالیسیوں میں اچانک اور خلاف توقع تبدیلیاں کی گئیں۔ان ریاستوں نے بھی آندھرا پردیش ااور اتر پردیش سے سیکھا ہے کہ پرانے معاہدوں کو منسوخ کرکے قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں کمی کے لئے نئے معاہدے کرنے پر کیسے اصرار کیا جاتا ہے۔گجرات نے پچھلے سال یہ فیصلہ کیا کہ صرف وہ پروجیکٹ ریاست کو بجلی فراہم کرسکتے ہیں ، جو پلانٹس کے لئے اسی ریاست کی زمین استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔جبکہ مرکزی قوانین کے مطابق بجلی سپلائی نظام بین الریاستی ترسیلی نظام کے تحت ہوسکتا ہے۔راجستھان نے حال ہی میں یہ فیصلہ سنایا کہ جو پائور پروجیکٹس دوسری ریاستوں کو بجلی سپلائی کرے گا ، اس پر 2.5سے 5لاکھ روپے تک فی میگاواٹ ٹیکس لیا جائے گا۔