کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی دفاعی آفسیٹ کے بارے میں حال ہی میں ایک انکشاف ہوا کہ ایسا ممکن ہے کہ بوئنگ نے امریکی حکومت کی طرف سے عائد پابندیوں کو بھارتی حکومت سے خفیہ رکھا ہو۔
بوئنگ کے عدم انکشاف کی وجہ سے دفاعی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ساتھ 2322 کروڑ روپے کا ایک ہائی الٹی ٹیوڈ انجن ٹیسٹ فیسیلٹی (ایچ اے ای ٹی ایف) قائم کرنے کا آفسیٹ معاہدہ ہوا تھا، جسے امریکی حکومت نے ابھی تک منظوری نہیں دی ہے، تاہم اس کے برآمد کے لیے ابھی تک لائسنس دینا باقی ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق 'حقیقت یہ ہے کہ ان ٹیکنالوجیز کو امریکی حکومت سے ایکسپورٹ لائسنس حاصل کرنا درکار تھا اور آفسیٹ کی تجویز پیش کرنے کے لیے امریکہ کو بھی اس بات کی جانکاری تھی'۔
حالانکہ نہ تو فرم نے ان لائسنسیز کے حصول کے لیے کسی میعاد کا انکشاف کیا ہے اور نہ ہی بھارتی وزارت دفاع نے بروقت اطلاع دینے پر اصرار کیا۔
اس معاملے میں سی اے جی کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ وزارت دفاع فروخت کردہ کے ذریعہ دیے گئے آفسیٹ وعدوں کو کس طرح پورا کرے گی۔
واضح رہے کہ آفسیٹ ایک ایسا معاہدہ ہے جو بھارتی آفسیٹ پارٹنر کو بیرونی ساز و سامان کی بڑی خریداری یا ٹکنالوجی کی منتقلی میں خریدار ملک کے وسائل کے نمایاں اخراج کے لیے ملکی صنعت کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔
خیال رہے کہ بوئنگ کے ساتھ 14 جون سنہ 2011 کو ایک فوجی آفسیٹ معاہدہ ہوا تھا، اس معاہدے کے تحت ڈی آر ڈی او سمیت 14 بھارتی آفسیٹ پارٹنرز (آئی او پی) کے سات منصوبوں نے 13 جون سنہ 2018 تک 8223 کروڑ روپے کی آفسیٹ ذمہ داریوں کا نپٹارا کیا جانا تھا۔
ڈی آر ڈی او کے ساتھ بوئنگ کے آفسیٹ معاہدے میں دو بڑے منصوبے شامل تھے، جن میں ہائی الٹی ٹیوڈ انجن ٹیسٹ فیسیلیٹی (ایچ اے ای ٹی ایف) جس کی مالیت 2322 کروڑ روپے ہے اور ٹرانسونک وائنڈ ٹنل (ٹی ڈبلیو ٹی) کی ٹیسٹ فیسیلیٹی، جس کی مالیت 1437 کروڑ روپے تھی۔
حالانکہ اس میں امریکی حکومت کی طرف سے برآمد پابندیوں کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور دونوں منصوبوں کو جون سنہ 2023 تک توسیع کردیا گیا، جسے بھارتی وزیر دفاع نے سنہ 2018 میں منظور کرلیا۔