ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے لان میں مندوبین کے سامنے اپنے والد کا (اپنے مخصوص الفاظ میں) تعارف کرایا۔ یہ مندوبین وبا، جس کی وجہ سے اب تک امریکا میں ایک لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اموات کا سلسلہ ابھی جاری ہے، کے دوران جسمانی دوریاں بنائے بغیر بیٹھے تھے۔ اُن میں سے بہت سے لوگوں نے ماسک بھی نہیں پہنا تھا۔ اس موقع پر ایونکا نے اپنی تقریر میں اپنے والد کو ’عوامی‘ صدر قرار دیا۔ حالانکہ اُن کا یہ کہنا سیاسی طور پر غلط ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب ’میک امریکا گریٹ اگین‘ امریکا کو پھر سے عظیم بنائیں، کی مہم جاری ہے، اس طرح جملے کام کے ثابت ہوتے ہیں۔
ایونکا نے کہا 'میرے والد پُر اعتماد ہیں۔ وہ جس بات پر یقین کرتے ہیں، اسے اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں۔ اُن کی زبان پر وہی ہوتا ہے، جو اُن کے دل میں ہوتا ہے۔ خواہ آپ اُن سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن آپ کے سامنے اُن کا کھلا روپ ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے والد کے بات کرنے کا ڈھنگ سب کو راس نہیں آتا اور میں جانتی ہوں کہ اُن کے ٹویٹ فلٹر کیے بغیر جاری ہوتے ہیں لیکن اُن کے کام کے نتائج آپ کے سامنے ہیں'۔
اس موقع پر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اپنے سیاسی حریف جو بیدن کے سینتالیس سالہ ماضی کو کھنگالتے ہوئے اُنہیں ہدف بنایا۔ انہوں نے ڈیموکریٹس کو حد سے زیادہ بنیاد پرست لیفٹسٹ قرار دیا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ ڈیموکریٹس کی حکومت والے شہریوں مینیاپولیس یا کینوشا میں نسل پرستی اور سیاہ فامز کے نام پر تشدد اور آتش زنی کیوں ہوئی۔
ٹرمپ نے کہا'یہ ہمارے ملک کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ اس پہلے کبھی بھی رائے دہندگان کے سامنے اتنی واضح چوائس نہیں رہی ہے۔ اُن کے سامنے دو پارٹیاں، دو نظریات، دو فلسفے اور دو ایجنڈے ہیں۔ یہ انتخابات فیصلہ کریں گے کہ کیا امریکا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا یا پھر ہم سوشلسٹ ایجنڈے کو اپنے مستقبل کا خواب تباہ کرنے دیں'۔
انہوں نے اپنی 71 منٹ کی تقریر میں مزید کہا'۔۔۔۔ اور یہ انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا ہم امریکی طرز زندگی کو تحفظ دیں گے یا ہم ایک شدت پسند تحریک کو اسے مکمل طور تباہ و برباد کرنے دیں۔ جو بیدن اور اُن کی پارٹی نے بار بار امریکا پر حملہ کرتے ہوئے اسے نسل پرستی کی سرزمین اور معاشی و سماجی نا انصافی پر مبنی ملک قرار دیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ہمارے ملک کو کیسے چلائے گی جبکہ یہ اسے اجاڑنے کا کوئی موقع نہیں گنواتی ہے؟'
اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے منعقد ہوئے ڈیموکریٹک کنونشن کے ورچیول اجلاس پر ریپبلیکن نیشنل کنونشن بھاری کیسے پڑا؟ بعض لوگوں نے وائٹ ہاوس، جو برسراقتدار صدر کا گھر ہوتا ہے، کو ایک واحد سیاسی پارٹی کے کنونشن کے لیے استعمال کرنے پر ریپبلیکن پارٹی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا من پسند مندوبین کو ٹرمپ کی تقریر سنانے کے لیے لانے کے پس پردہ ٹرمپ کو ایک بہتر انسان، رحمدل اور شفیق شخص ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی؟ وہ کون سے مسائل ہوں گے، جن کی بنا پر لوگ نومبر کے صدارتی انتخابات میں اپنا ووٹ دیں گے؟
سینئر صحافی سمیتا شرما نے خصوصی سیریز ' بیٹل گراونڈ امریکا 2020' کے تحت ریپبلیکن نیشنل کنونشن کے حوالے سے اور ٹرمپ کی تقریر میں کہی گئی باتوں پر کئی لوگوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
اس بات چین میں واشنگٹن ڈی سی سے حصہ لیتے ہوئے سینئر صحافی اور کالم نگار سیما سروہی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، 'وائٹ ہاؤس کے لان میں لگ بھگ پندرہ سو افراد موجود تھے۔ اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ ان شرکا میں سے بہت کم لوگ ماسک پہن کر آئے تھے۔ اُن کی کرسیاں بھی ایک دوسرے کے بہت قریب تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وبا نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ ایک مقرر نے وبا کے بارے میں ایسے بات کی جیسے کہ وہ موجودہ وقت کی نہیں بلکہ ماضی کی بات کررہا تھا۔ یا پھر ہم کسی دوسری کائنات میں بیٹھے ہیں، جہاں وبا موجود نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک گیٹ پر مظاہرین اور پولیس موجود تھی۔ پولیس گیٹ کی حفاظت کررہی تھی۔ کل واشنگٹن میں ریلی ہوگی۔ مجھے لگا کہ جیسے امریکا دو مختلف ممالک پر مشتمل ہے۔ پہلے بھی ایسا لگا تھا، لیکن آج واضح طور پر یہی کچھ لگ رہا تھا۔'
ورگیش کے جارج، جو ’دی ہندو‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں اور جنہوں نے 'اوپن امبریس: انڈو یو ایس ٹائز اِن دی ایچ آف مودی اینڈ ترمپ' نامی کتاب بھی لکھی ہے، کا کہنا تھا، 'آپ نے ٹرمپ کے نکتہ نظر سے یہ سن لیا کہ امریکا کیا ہے اور اسے کیا ہونا چاہیے۔ چند دن پہلے ہم نے جو بیدن کے نکتہ نظر سے بھی سن لیا کہ امریکا کیا ہے اور اسے کیا ہونا چاہیے۔ ایک لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح بھی ہیں اور غلط بھی۔ لیکن اصل میں دیکھنا یہ ہے کہ لوگ ان دو میں سے کس کو اپنا سپورٹ دیں گے۔ الیکشن اس بات کا فیصلہ کرے گا۔'
ورگیش کے جارج، جو سنہ 2016کے انتخابات میں واشنگٹن ڈی سی میں تعینات تھے، نے مزید کہا کہ ان دو کہانیوں، جو ٹرمپ اور بیدن اپنے اپنے طور پر بیان کررہے ہیں، میں سے ٹرمپ کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں وائرس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ امریکا ایک تہذیب کا نام ہے، جو وائرس کے سامنے سرینڈر نہیں کرے گا بلکہ اس کے خلاف لڑے گا اور فتح پائے گا اور وائرس کو تباہ کردے گا۔ اس بیانیہ کو امریکا کی عوام اور پوری دُنیا کے سامنے رکھا گیا ہے۔ در اصل یہ ایک ایسا ملک ہے، جو سمجھتا ہے کہ وہ لڑنے اور وسط ایشیاء میں جمہوریت کو قائم کرنے کے لیے عراق گیا تھا۔
ورگیش کے جارج نے ریپبلیکنز اور بی جے پی کے سیاسی نظریات کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے ذات پات کے مسئلے کو پس پشت ڈالتے ہوئے کلی طور ہندو اور ہندو توا ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ اسی طرح ٹرمپ نے ایک ایسے وقت میں جب امریکا میں منظم طریقے سے جاری نسل کشی کے خلاف احتجاج ہورہا ہے، سیاہ فامز کے مسئلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے قدامت پسند خیالات اور انجیلی بشارتوں کا حوالہ دیکر کیتھولک (مسیحی) فرقے بشمول افریقین امریکین کو لبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
صدارتی عہدے کی نامزدگی کو رسمی طور پر قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ٹرمپ نے بیدن پر الزام عائد کیا کہ وہ چین کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا 'اگر بیدن منتخب ہوئے تو چین ہمارے ملک کا مالک بن جائے گا'۔ انہوں نے اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اسرائیل کا دارالحکومت یروشلم منتقل کرانے اور متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کرایا۔
ٹرمپ نے کہا کہ جب میں نے اقتدار سنبھالا، وسط ایشیاء میں مکمل طور افرا تفری تھی۔ داعش کو فروغ مل رہا تھا۔ ایران عروج پارہا تھا۔ افغانستان میں جنگ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں نے خوفناک صورتحال سے چھٹکارا پالیا۔ یکطرفہ ایران نیوکلئیر ڈیل کو ختم کیا۔ میں نے ماضی کے امریکی صدور کے برعکس اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے، اسرائیل کے حقیقی دار الحکومت میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرادیا۔ ہم نے صرف باتیں نہیں کیں، بلکہ کرکے دکھایا۔
انہوں نے مزید کہا 'ہم نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا اور اس مہینے ہم نے پچیس سال میں پہلی بار وسط ایشیاء سے متعلق امن معاہدے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم نے داعش کا سو فیصد خاتمہ کردیا اور اس کے بانی اور رہنما ابو بکر البغدادی کو ماردیا۔ اس کے بعد ایک علاحدہ آپریشن میں ہم نے دُنیا کے نمبر ون دہشت گرد قاسم سلیمانی کو ختم کردیا۔ سابق امریکی منتظمیں کے برعکس میں نے امریکا کو نئے جنگوں سے بچالیا اور ہمارے فوجی اب گھر واپس لوٹ رہے ہیں'۔
سمیتا شرما نے میتھاس لیبس، جو انسداد پُرتشدد انتہا پسندی کے حوالے سے کام کررہا ہے، کے چیف ایگزیکٹو پریانک ماتھر سے پوچھا کہ کیا وسط ایشیا کے لیے امریکی امن معاہدہ اور بغدادی اور سلیمانی کی ہلاکتیں جیسے واقعات امریکی انتخابات میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں پریانک ماتھر نے بتایا 'عام طور سے خارجہ پالیسی سے جڑے معاملات امریکی انتخابات کے دوران کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن اس بار ایسا دو وجوہات کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اسرائیل امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دائیں بازو کی سیاست میں مذہبی اعتقاد کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اسرائیل انجیلی بشارت کے لحاظ سے دائیں بازو کی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس لحاظ سے امن معاہدے، خواہ اس کے فائدے ہوں یا نقصانات، لیکن اس کی ایک مذہبی اہمیت ہے۔ لیکن جہاں تک قاسم سلیمانی اور بغدادی کا تعلق ہے، وہ اتنے بڑے نام نہیں ہیں، جتنا بڑا نام اوسامہ بن لادن کا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں وہ (ریپبلیکنز) قاسم سلیمانی اور بغدادی کے نام سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہی ہمارے دور کے بن لادن تھے اور ہم نے اُنہیں مار گرایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر امریکیوں کو پتہ ہی نہیں کہ قاسم سلیمانی کون تھا'۔
پریانک ماتھر نے اس ضمن میں ماضی کے واقعہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ جب صدر اوبامہ کے دور حکومت میں اوسامہ بن لادن مارا گیا تھا تو امریکا کے سڑکوں پر جشن منایا گیا تھا۔
اس بات چیت میں کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے امریکی انتخابات میں پوسٹل بیلٹ استعمال کرنے کے معاملے پر پیدا شدہ کنٹروسی اور اس سوال پر کہ کیا اس بارے میں رائے دہندگان کے خدشات واجب ہیں؟ پر بھی خیالات کا تبادلہ کیا گیا۔ بات چیت میں شریک سبھی لوگوں نے اتفاق کیا کہ پوسٹل بیلٹ کے استعمال کے نتیجے میں انتخابی نتائج متاثر ہوں گے اور انتخابی نتائج کا اعلان چار نومبر کو کرنا ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ اس طرح سے انتخابی نتائج آنے میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوجائے گی۔