سنہ 2019 کو چیف ویجی لینس کمشنر کے عہدہ سے کے وی چودھری کی سبکدوشی کے بعد یہ عہدہ خالی ہوگیا تھا۔ اب اس پر سنجے کوتھاری کو تعینات کیا گیا ہے، جو اب تک صدرِ ہند کے سیکرٹری تھے۔ اسی طرح چیف انفارمیشن کمشنر کے عہدے سے سدھیر بھارگو کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب اس عہدے پر بمل جھُلکا کو تعینات کیا گیا ہے۔ یہ دونوں تقرریاں وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم کی گئی سلیکشن کمیٹی کے ذریعے عمل میں لائی گئی ہیں۔
وزیر اعظم نے ہدایات دی تھی کہ ان تقرریوں سے متعلق حتمی فہرست کو قائد حزب اختلاف کی منظوری کے لئے بھیج دیا جائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ بات ان تقرریوں کے حوالے سے پہلا اعتراض ہے۔ دوسرا یہ کہ کمیٹی، جس کا کام ان عہدوں کے لئے مناسب اُمیدواروں کا انتخاب کرنا تھا لیکن ایک رکن کو ہی اُمیدواروں کے حتمی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ان وجوہات کی وجہ سے یہ تقرریاں متنازعہ بن گئی ہیں۔
مرکزی سرکار نے اس ضمن میں کانگریس لیڈر ادھیر چوہدری کے اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثریتی رائے سے یہ تقرریاں عمل میں لائیں۔ لیکن حق بجانب یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ ان تقرریوں کے حوالے حتمی فیصلہ حکومت کو ہی کرناتھا، تو پھر سلیکشن عمل کس کام کا ہے۔
پچھلے سال سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر رشی کمار کو تعینات کرنے پر بھی سوال کھڑے کردیئے گئے تھے۔ اُس وقت یہ کہا گیا تھا کہ اس شخص کو کرپشن کے معاملات میں پوچھ تاچھ کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے ، اس لئے وہ اس عہدے کے لئے مناسب اُمیدوار نہیں تھے۔
بجائے اس کے کہ اِ ن آئینی عہدوں کی سربراہی کے لئے صاف گو اور دیانتدار افراد کا انتخاب کیا جاتا جو ان عہدوں کی حرمت کو برقرار رکھ پاتے اور اس انتخابی عمل میں دوسرے پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر یہ تقرری عمل میں لائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ کئی بار عدالت عظمیٰ نے اس طرح کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے رہنمائی بھی کی ہے۔ لیکن سیاسی نظام نے اس حوالے سے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے اور اس طرح سے ان آئینی اداروں پرگرہن لگایا جاتا ہے۔در اصل ہمارے ملک میں جب سے کرپشن کو سیاسی بالیدگی سمجھنا شروع کیا گیا ہے ، ان اداروں کا تنزل شروع ہوگیا ہے۔
بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ایل کے ایڈوانی نے سنہ 2012 میں کہا تھا کہ اگر کسی کو حکمران جماعت کا آشر واد حاصل ہوتا ہے تو وہ آئینی عہدوں پر قابض ہوسکتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اقرباء پروری اور سیاسی پینترا بازی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یوپی اے کے دوراِحکمرانی میں نوین چاولہ کے بطور الیکشن کمیشن کی تقرری کس قدر متنازعہ بن گئی تھی ۔ یہاں تک کہ اُس وقت کے چیف الیکشن کمیشن گوپال سوامی نے اُس وقت صدرِ ہند کے نام ایک مکتوب میں نوین چاولہ کی اقربا پروری کی کئی مثالیں دی تھیں۔
انہوں نے اس خط میں موصوف کی بدعنوانیوں کی مثالیں دیتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ موصوف نے چیف الیکشن کمیشن آفس سے اہم رازوں کو چرا کر انہیں حکمران جماعت تک پہنچایا ہے۔ ایل کے ایڈوانی نے مشورہ دیا تھا کہ وزیر اعظم، چیف جسٹس، مرکزی وزیر قانون اور راجیہ سبھا و لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف پر مشتمل حلقہ چیف الیکشن کمیشنر کی تعیناتی عمل میں لائے ۔ تاکہ اس فیصلے میں اپوزیشن کا کردار بھی شامل ہو۔
منموہن سنگھ حکومت کی جانب سے پی جے تھامس کو چیف ویجی لینس کمشنر تعینات کئے جانے پر سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے خود کو الگ رکھ دیا۔ در اصل موصوف کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک کیس زیر سنوائی تھا۔ اس لحاظ سے اُن کی تقرری کے باعث حکومت پر ایک بدنما داغ لگ گیا ۔
حکومت کو چیف ویجی لینس کمشنر کے عہدے کیلئے اس تعیناتی پر سپریم کورٹ کی پھٹکار بھی سننی پڑی تھی۔حالانکہ اُس وقت کی قائد حزب اختلاف سشما سوراج نے دیگر دو نامزد اُمیدواروں میں سے کسی ایک کو چننے میں اپنا کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے تھامس کو ہی اس عہدے پر تعیناتی کے لئے منتخب کیا۔ حکومت نے یہ تقرری عمل میں لاتے وقت سپریم کورٹ کے طے کردہ قوائد کو بھی نظر انداز کیا ۔
الیکشن کمیشن ، سینٹرل ویجی لینس کمیشن، چیف آڈیٹر جنرل ، سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور سینٹرل بیرو آف انوسٹی گیشن سب کے سب اہم ادارے ہیں، جو عوام کی فلاح کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان میں الیکشن کمیشن کو چھوڑ کر باقی سارے اداروں کا کام کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور عوامی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر یہ ادارے دیانت دار افراد کے ماتحت رہتے تو آج بھارت کا نام کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہوتا۔
اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ رنجیت سنہا نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کئی شرمناک حرکتیں کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زیر شنوائی معاملات میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ۔حال ہی میں الوک ورما ( سی بی آئی کے ڈائریکٹر )اور استھانا ( سپیشل ڈائریکٹر سی بی آئی )کی ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے رہے جس کے نتیجے میں اس ادارے کی مضحکہ خیز صورتحال عوام کے سامنے لائی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مرکزی اور ریاستی سطح کے انفارمیشن کمیشنوں میں سربراہوں کی خالی عہدوں پر تین ماہ کے اندر اندر تقرریاں عمل میں لانے کی ہدایات کے بعد ان کمیشنوں پر منظور نظر افراد کو تعینات کرنے کے لئے کوششیں شروع ہوگئیں۔
دوسری جانب چھ ماہ گزر جانے کے باوجود لوک پال ادارے کے عہدے پُر نہیں کئے جارہے ہیں اور نہ ہی اس ادارے کو مقدمہ چلانے کے اختیارات دیئے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ جھنجھلاہٹ پیدا کرنے والا ہے۔ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2018 میں الیکشن کمشنروں کے تعیناتی کے لئے ایک خود اختیار نظام قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس پر لاء کمیشن نے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقرریاں اتفاق رائے سے عمل میں نہیں لائی جاسکتی ہیں اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو اس صورت میں یہ عہدے کبھی پُر ہی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے قومی اخلاق میں کس قدر زہریلا کلچر سرائیت کرچکا ہے۔
جب ہم امریکہ، روس، جرمنی اور جاپان جیسے ممالک کی پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقاتی ادارے قائم کریں گے، تب ہی بھارت میں ان اہم اداروں کا تقدس قائم ہوسکتا ہے۔