ETV Bharat / bharat

کووِڈ 19-: چین بمقابلہ باقی دُنیا!

author img

By

Published : Apr 23, 2020, 4:57 PM IST

انچل ملہوترا نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا وبا ٹل جانے کے بعد باقی دنیا کا چین کے ساتھ معمول رویہ رہے گا یا دنیا اس کے ساتھ سماجی دوری بنانے کی ضرورت محسوس کرے گی یہ تو وقت بتائے گا لیکن فی الحال بھارت چین کے خلاف کوئی بھی بیان دینے سے گریز کررہا ہے۔اس وقت بھارت کی بنیادی توجہ کووِڈ 19-کو ملک میں تیسرے مرحلے میں داخل ہونے سے روکنے اور دوسری جانب عالمی سطح پر اس وباٗ کو مشترکہ اور منظم طریقہ سے ختم کرنے پر مرکوز ہے، جس میں رقومات پیدا کرکے باالخصوص غریب اور ضرورت مند ممالک کی مدد کرنا، اطلاعات کا تبادلہ اور جلد سے جلد کووِڈ 19-کا علاج یا ویکسین تلاش کرنا شامل ہے،۔

کووِڈ 19-: چین بمقابلہ باقی دُنیا
کووِڈ 19-: چین بمقابلہ باقی دُنیا

کووِڈ 19 کے بحران نے دنیا کو ان حالات میں گھیرا لیا ہے کہا اب چین اور بقیہ دنیا کے درمیان کچھ وقت سے اعتماد کا بڑا فقدان ہے۔ اعتماد کا یہ فقدان بنیادی طور پر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، مختلف بر اعظموں میں اسکی موجودگی اور اثرو رسوخ اور دنیا کو فتح کرکے اسے اقتصادی طور پر غلام بنانے کے اسکے عزائم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس بات پر بین الاقوامی سطح پر وسیع اتفاق ہے کہ چین کے بظاہر بے ضرر، اقتصادی اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ اور اسکی بین الاقوامی امداد و تعاون کی پالیسی کے سنگین جغرافیائی-سیاسی اور اسٹریٹجک و سلامتی مضمرات ہیں۔خاص طور پر چین کی ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر)/بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) پہل اور اسکی ذیلی مصنوع یعنی چین کی قرضوں کے جال کی پالیسی کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

بڑے ممالک ،بشمولِ امریکہ و بھارت کی اکثریت چین کے ساتھ بھاری تجارتی تعلقات میں کمی کرنے اور اسکی جانب سے منظم طور پر عالمی کمپنیوں اور عالمی گورننس کے اداروں میں اپنی حصہ داری بڑھانے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔متنازعہ جنوبی چینی سمندر میں چین کی جارحیت کو خطہ میں نیوی گیشن اور ہوا بازی کی آزادی کیلئے ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے، جس کے ذریعہ کھربوں ڈالر مالیت کے بین الاقوامی بیوپار کو گذارا جاتا ہے،

جس انداز میں کووِڈ 19- کی وبا نے جنم لیکر ساری دنیا کو گھیر لیا ہے اور پھر چین نے جاری بحران کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس سے اسکی بین الاقوامی شبیہ اور اعتباریت کو مزید نقصان پہنچنا طے ہے جبکہ بین الاقوامی برادری چوکنا ہوجائے گی۔

بین الاقوامی برادری کے کچھ حلقوں، باالخصوص امریکہ میں یہ بات گشت کررہی ہے کہ (کورونا) وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کرکے دنیا کو کمزور کرنے کیلئے ایک سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے، وہیں ان نظریات کے بیچ اس بات پر وسیع عالمی اتفاق ہے کہ چین بقیہ دنیا کو وائرس کی وباٗ کے پھیلاؤ کے بارے میں بروقت ہوشیار کرنے میں ناکام رہا جسکے نتیجے میں انسانی جانوں کا بھاری نقصان ہوا اور عالمی معیشت کو شدید دھچکہ پہنچا۔ چین پر کامیابی کے ساتھ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او)،جسکے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریئسس 2017 مئی میں چین کی حمایت سے منتخب ہوئے تھے، ان کو استعمال کرکے یوں مبینہ طور پر اپنی ناکامی کو چھپانے کا الزام بھی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے نہ صرف مہلک وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق چین کے بیانیہ کی توثیق کی بلکہ اس نے وباٗ کو قابو کرنے کیلئے چین کے اقدامات کی آن ریکارڈ تعریفیں بھی کیں۔

اس دوران چین کی پہلے سے خراب شبیہ کو یہ حقیقت مزید بدترین بناتی ہے کہ چین بحران میں بھی مواقع کی تاک میں بیٹھا ہے۔میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ چین نے اٹلی کے کورونا وائرس کا مرکز بن جانے پراسے پرسنل پروٹکشن کِٹ بیچے حالانکہ اٹلی نے چین کے وائرس کا شکار ہونے کی ابتداٗ میں اسے ایسی بے شمار کِٹس عطیہ کردی تھیں چناچہ اگر یہ رپورٹس صحیح ثابت ہوتی ہیں تو یہ فی الواقع ایک شرمناک بات ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین غیر معیاری طبی سامان فروخت کرکے پیسہ کمانے کی جلدی میں ہے۔اسپین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے چین کو فوری ٹیسٹنگ کی 50000 ناقص کِٹس واپس کردی ہیں۔ اسی طرح نیدرلینڈس نے بھی مصنوعات کے حفاظتی معیار پر کھرا نہ اترنے کی وجہ سے چین کی سپلائی کو رد کردیا ہے۔

طویل المدتی مضمرات کی حامل سنگین تشویش کی بات یہ خدشات ہیں کہ چین عالمی اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحانہ طور پر حصص خرید کر بین الاقوامی سطح پر جائیدادیں کھڑا کرے گا۔امریکہ اور بعض یورپی ممالک کچھ وقت سے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے ٹیکنالوجی کمپنیوں کی چینی فرموں کو فروخت کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ اٹلی، اسپین اور جرمنی وغیرہ نے وباٗ کے بعد غیر ملکی باالخصوص چین کی جانب سے سرمایہ کاری کی جانچ کیلئے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مغربی برادریاں چین کے کردار کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔امریکہ اور دیگر ممالک میں مقدمات درج کرکے چین سے پھیلے وائرس کی وباٗ سے دنیا کو ہوئے نقصان کیلئے کھربوں ڈالر معاوضہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امریکہ نے بحران کے بیچ میں ڈبلیو ایچ او کو مالیاتی حصہ داری کم کرکے تنظیم کے خلاف ایک تعزیراتی، لیکن روکنے کے قابل، کارروائی کی ہے۔

بھارت نے کس طرح جواب دیا ہے؟ بھارت نے چین کے خلاف بین الاقوامی جذبات کی بازگشت میں شامل ہونے کا مطلب رکھنے والا کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔بھارت نے ڈبلیو ایچ او کی کوئی تنقید کرنے سے بھی پرہیز کیا ہوا ہے اسکی بجائے بھارت نے (جی20-ورچیول کانفرنس میں) ڈبلیو ایچ او میں اصلاح کرکے اسے مظبوط بنانے کی بات کی ہے۔ اس وقت بھارت کی بنیادی توجہ کووِڈ 19-کو ملک میں تیسرے مرحلے میں داخل ہونے سے روکنے اور دوسری جانب عالمی سطح پر اس وباٗ کو مشترکہ اور منظم طریقہ سے ختم کرنے پر مرکوز ہے، جس میں رقومات پیدا کرکے باالخصوص غریب اور ضرورت مند ممالک کی مدد کرنا، اطلاعات کا تبادلہ اور جلد سے جلد کووِڈ 19-کا علاج یا ویکسین تلاش کرنا شامل ہے،۔

تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت نے بین الجہتی قابلِ عمل طریقہ اپنایا ہے۔ اپنی عالمی تلاش کے حصہ کے بطور بھارت وباٗ کے پیشِ نظر چین سے طبی سازوسامان کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق (جن میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے) زائد از 390 ٹن طبی سازوسامان، بشمولِ آر ٹی -پی سی آر ٹیسٹ کِٹ، ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹس، تھرمومیٹرس اور پرسنل پروٹیکٹیو کِٹس (پی پی ای) ،خرید کر 4 سے19 اپریل کے بیچ ہوائی جہاز کے ذریعہ چین سے بھارت لایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت بڑی احتیاط کے ساتھ چلتے ہوئے اس بات کو یقینی بنارہا ہے کہ چین بھارت میں اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے قابل نہ ہونے پائے۔

مثلاََ بھارت نے 18اپریل کو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سبھی ممالک، جنکے ساتھ سرحدیں اور زمین ملتی ہے، ان سے آنے والے سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کیلئے اپنی نظرِ ثانی شدہ غیر ملکی راست سرمایہ کاری پالیسی کا اعلان کیا ۔ یہ اقدام عیاں طور پر چین کو بھارت میں اس کاروبار یا سرمایہ کاری کو خریدنے سے روکنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے کہ جو وباٗ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہوگئی ہوں۔ یہ اعلان سنٹرل بینک آف چائنا کے وبائی بحران کے دوران جب حصص کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آئی تھی تب ہاوٗسنگ فائنانس کے سب سے بڑے قرض دہندگان میں سے ایک ایچ ڈی ایف سی لمیٹڈ کے 17.5 ملین حصص خریدنے کے فوری بعد کیا گیا۔بھارت نے چین کے اس الزام کو رد کردیا ہے کہ نظرِ ثانی شدہ پالیسی بھارت کے عالمی تجارت تنظیم یا ڈبلیو ٹی او اور دیگر کثیر الجہتی تنظیموں کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے صحیح طور وضاحت کی ہے کہ نظرِ ثانی شدہ ہدایات صرف فارئن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) بھارت کی جانب راستے کی تبدیلی فراہم کرتی ہیں جبکہ اس سے چُنندہ ممالک بھارت میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار نہیں کرتا ہے۔ اس بات کی نشاندہی متعلقہ ہے کہ خود چین نے بھارتی کمپنیوں کی اپنے مارکیٹ کے مختلف شعبوں تک ، جیسے دوا سازی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) وغیرہ، رسائی پر کئی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔

کووِڈ 19-کی وجہ سے پیدا شدہ عالمی بحران کو ابھی ختم نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس وباٗ کی وجہ سے انسانی جانوں اور عالمی معیشت،یہاں تک کہ مجموعی سماج کو اس وباٗ سے جو ممکنہ نقصان پہنچنے کو ہے،اس نقصان کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا قبل از وقت ہے۔ یہ پتہ لگانے میں عمر لگے گی یا اس بات کا انکشاف کرنا بھی کبھی ممکن نہیں ہو پائے کہ کووِڈ 19-کوئی سازش تھی یا فطری عمل۔ شائد یہ بھی کبھی واضح نہ ہو کہ ڈبلیو ایچ او کی ناکامی نظام کی ناکامی تھی یا یہ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اپنے آقا کی مہربانی کا بدلہ چکانے کا معاملہ تھا۔ تاہم ابھی یہ بات واضح ہے کہ موجودہ بحران نے چین کے تئیں بد اعتمادی کو عالمی برادری میں اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔اس بحران نے اقتصادی آزادی، عالمیت یا گلوبلائزیشن اور انفرادی ممالک کی قومی سلامتی کے بیچ لکیر کھینچنے کی ضرورت بھی اجاگر کردی ہے۔

یہ دیکھنا البتہ باقی ہے کہ وباٗ ختم ہونے کے بعد چین کے ساتھ معمول کی طرح کا رویہ ہوگا یا پھر بقیہ دنیا اسکے ساتھ ’’سوشل ڈسٹنس‘‘ بنائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے گی!

کووِڈ 19 کے بحران نے دنیا کو ان حالات میں گھیرا لیا ہے کہا اب چین اور بقیہ دنیا کے درمیان کچھ وقت سے اعتماد کا بڑا فقدان ہے۔ اعتماد کا یہ فقدان بنیادی طور پر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، مختلف بر اعظموں میں اسکی موجودگی اور اثرو رسوخ اور دنیا کو فتح کرکے اسے اقتصادی طور پر غلام بنانے کے اسکے عزائم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس بات پر بین الاقوامی سطح پر وسیع اتفاق ہے کہ چین کے بظاہر بے ضرر، اقتصادی اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ اور اسکی بین الاقوامی امداد و تعاون کی پالیسی کے سنگین جغرافیائی-سیاسی اور اسٹریٹجک و سلامتی مضمرات ہیں۔خاص طور پر چین کی ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر)/بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) پہل اور اسکی ذیلی مصنوع یعنی چین کی قرضوں کے جال کی پالیسی کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

بڑے ممالک ،بشمولِ امریکہ و بھارت کی اکثریت چین کے ساتھ بھاری تجارتی تعلقات میں کمی کرنے اور اسکی جانب سے منظم طور پر عالمی کمپنیوں اور عالمی گورننس کے اداروں میں اپنی حصہ داری بڑھانے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔متنازعہ جنوبی چینی سمندر میں چین کی جارحیت کو خطہ میں نیوی گیشن اور ہوا بازی کی آزادی کیلئے ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے، جس کے ذریعہ کھربوں ڈالر مالیت کے بین الاقوامی بیوپار کو گذارا جاتا ہے،

جس انداز میں کووِڈ 19- کی وبا نے جنم لیکر ساری دنیا کو گھیر لیا ہے اور پھر چین نے جاری بحران کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس سے اسکی بین الاقوامی شبیہ اور اعتباریت کو مزید نقصان پہنچنا طے ہے جبکہ بین الاقوامی برادری چوکنا ہوجائے گی۔

بین الاقوامی برادری کے کچھ حلقوں، باالخصوص امریکہ میں یہ بات گشت کررہی ہے کہ (کورونا) وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کرکے دنیا کو کمزور کرنے کیلئے ایک سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے، وہیں ان نظریات کے بیچ اس بات پر وسیع عالمی اتفاق ہے کہ چین بقیہ دنیا کو وائرس کی وباٗ کے پھیلاؤ کے بارے میں بروقت ہوشیار کرنے میں ناکام رہا جسکے نتیجے میں انسانی جانوں کا بھاری نقصان ہوا اور عالمی معیشت کو شدید دھچکہ پہنچا۔ چین پر کامیابی کے ساتھ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او)،جسکے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریئسس 2017 مئی میں چین کی حمایت سے منتخب ہوئے تھے، ان کو استعمال کرکے یوں مبینہ طور پر اپنی ناکامی کو چھپانے کا الزام بھی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے نہ صرف مہلک وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق چین کے بیانیہ کی توثیق کی بلکہ اس نے وباٗ کو قابو کرنے کیلئے چین کے اقدامات کی آن ریکارڈ تعریفیں بھی کیں۔

اس دوران چین کی پہلے سے خراب شبیہ کو یہ حقیقت مزید بدترین بناتی ہے کہ چین بحران میں بھی مواقع کی تاک میں بیٹھا ہے۔میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ چین نے اٹلی کے کورونا وائرس کا مرکز بن جانے پراسے پرسنل پروٹکشن کِٹ بیچے حالانکہ اٹلی نے چین کے وائرس کا شکار ہونے کی ابتداٗ میں اسے ایسی بے شمار کِٹس عطیہ کردی تھیں چناچہ اگر یہ رپورٹس صحیح ثابت ہوتی ہیں تو یہ فی الواقع ایک شرمناک بات ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین غیر معیاری طبی سامان فروخت کرکے پیسہ کمانے کی جلدی میں ہے۔اسپین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے چین کو فوری ٹیسٹنگ کی 50000 ناقص کِٹس واپس کردی ہیں۔ اسی طرح نیدرلینڈس نے بھی مصنوعات کے حفاظتی معیار پر کھرا نہ اترنے کی وجہ سے چین کی سپلائی کو رد کردیا ہے۔

طویل المدتی مضمرات کی حامل سنگین تشویش کی بات یہ خدشات ہیں کہ چین عالمی اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحانہ طور پر حصص خرید کر بین الاقوامی سطح پر جائیدادیں کھڑا کرے گا۔امریکہ اور بعض یورپی ممالک کچھ وقت سے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے ٹیکنالوجی کمپنیوں کی چینی فرموں کو فروخت کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ اٹلی، اسپین اور جرمنی وغیرہ نے وباٗ کے بعد غیر ملکی باالخصوص چین کی جانب سے سرمایہ کاری کی جانچ کیلئے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مغربی برادریاں چین کے کردار کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔امریکہ اور دیگر ممالک میں مقدمات درج کرکے چین سے پھیلے وائرس کی وباٗ سے دنیا کو ہوئے نقصان کیلئے کھربوں ڈالر معاوضہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امریکہ نے بحران کے بیچ میں ڈبلیو ایچ او کو مالیاتی حصہ داری کم کرکے تنظیم کے خلاف ایک تعزیراتی، لیکن روکنے کے قابل، کارروائی کی ہے۔

بھارت نے کس طرح جواب دیا ہے؟ بھارت نے چین کے خلاف بین الاقوامی جذبات کی بازگشت میں شامل ہونے کا مطلب رکھنے والا کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔بھارت نے ڈبلیو ایچ او کی کوئی تنقید کرنے سے بھی پرہیز کیا ہوا ہے اسکی بجائے بھارت نے (جی20-ورچیول کانفرنس میں) ڈبلیو ایچ او میں اصلاح کرکے اسے مظبوط بنانے کی بات کی ہے۔ اس وقت بھارت کی بنیادی توجہ کووِڈ 19-کو ملک میں تیسرے مرحلے میں داخل ہونے سے روکنے اور دوسری جانب عالمی سطح پر اس وباٗ کو مشترکہ اور منظم طریقہ سے ختم کرنے پر مرکوز ہے، جس میں رقومات پیدا کرکے باالخصوص غریب اور ضرورت مند ممالک کی مدد کرنا، اطلاعات کا تبادلہ اور جلد سے جلد کووِڈ 19-کا علاج یا ویکسین تلاش کرنا شامل ہے،۔

تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت نے بین الجہتی قابلِ عمل طریقہ اپنایا ہے۔ اپنی عالمی تلاش کے حصہ کے بطور بھارت وباٗ کے پیشِ نظر چین سے طبی سازوسامان کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق (جن میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے) زائد از 390 ٹن طبی سازوسامان، بشمولِ آر ٹی -پی سی آر ٹیسٹ کِٹ، ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹس، تھرمومیٹرس اور پرسنل پروٹیکٹیو کِٹس (پی پی ای) ،خرید کر 4 سے19 اپریل کے بیچ ہوائی جہاز کے ذریعہ چین سے بھارت لایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت بڑی احتیاط کے ساتھ چلتے ہوئے اس بات کو یقینی بنارہا ہے کہ چین بھارت میں اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے قابل نہ ہونے پائے۔

مثلاََ بھارت نے 18اپریل کو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سبھی ممالک، جنکے ساتھ سرحدیں اور زمین ملتی ہے، ان سے آنے والے سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کیلئے اپنی نظرِ ثانی شدہ غیر ملکی راست سرمایہ کاری پالیسی کا اعلان کیا ۔ یہ اقدام عیاں طور پر چین کو بھارت میں اس کاروبار یا سرمایہ کاری کو خریدنے سے روکنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے کہ جو وباٗ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہوگئی ہوں۔ یہ اعلان سنٹرل بینک آف چائنا کے وبائی بحران کے دوران جب حصص کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آئی تھی تب ہاوٗسنگ فائنانس کے سب سے بڑے قرض دہندگان میں سے ایک ایچ ڈی ایف سی لمیٹڈ کے 17.5 ملین حصص خریدنے کے فوری بعد کیا گیا۔بھارت نے چین کے اس الزام کو رد کردیا ہے کہ نظرِ ثانی شدہ پالیسی بھارت کے عالمی تجارت تنظیم یا ڈبلیو ٹی او اور دیگر کثیر الجہتی تنظیموں کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے صحیح طور وضاحت کی ہے کہ نظرِ ثانی شدہ ہدایات صرف فارئن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) بھارت کی جانب راستے کی تبدیلی فراہم کرتی ہیں جبکہ اس سے چُنندہ ممالک بھارت میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار نہیں کرتا ہے۔ اس بات کی نشاندہی متعلقہ ہے کہ خود چین نے بھارتی کمپنیوں کی اپنے مارکیٹ کے مختلف شعبوں تک ، جیسے دوا سازی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) وغیرہ، رسائی پر کئی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔

کووِڈ 19-کی وجہ سے پیدا شدہ عالمی بحران کو ابھی ختم نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس وباٗ کی وجہ سے انسانی جانوں اور عالمی معیشت،یہاں تک کہ مجموعی سماج کو اس وباٗ سے جو ممکنہ نقصان پہنچنے کو ہے،اس نقصان کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ لگانا قبل از وقت ہے۔ یہ پتہ لگانے میں عمر لگے گی یا اس بات کا انکشاف کرنا بھی کبھی ممکن نہیں ہو پائے کہ کووِڈ 19-کوئی سازش تھی یا فطری عمل۔ شائد یہ بھی کبھی واضح نہ ہو کہ ڈبلیو ایچ او کی ناکامی نظام کی ناکامی تھی یا یہ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اپنے آقا کی مہربانی کا بدلہ چکانے کا معاملہ تھا۔ تاہم ابھی یہ بات واضح ہے کہ موجودہ بحران نے چین کے تئیں بد اعتمادی کو عالمی برادری میں اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔اس بحران نے اقتصادی آزادی، عالمیت یا گلوبلائزیشن اور انفرادی ممالک کی قومی سلامتی کے بیچ لکیر کھینچنے کی ضرورت بھی اجاگر کردی ہے۔

یہ دیکھنا البتہ باقی ہے کہ وباٗ ختم ہونے کے بعد چین کے ساتھ معمول کی طرح کا رویہ ہوگا یا پھر بقیہ دنیا اسکے ساتھ ’’سوشل ڈسٹنس‘‘ بنائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے گی!

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.