ETV Bharat / bharat

تبلیغی جماعت کو غیر جانبداری سے دیکھنے کی ضرورت - تبلیغی جماعت

مضمون نگار کمریڈ سی ادئے بھاسکر نے کہا ہے کہ تبلیغی جماعت کی جانب سے کووِڈ19 کے حوالے سے حکومتی ہدایات کی خلاف وزری اپنی نااہلیت یا پھر اپنے گمراہ کن مذہبی عقیدے کی وجہ سے کی ہے۔ اس سوال کا جواب صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے، جب اس معاملے کی ایک غیر جابندار اور حقیقت پسندانہ تحقیق ہو۔

کووِڈ19کا چیلنج اور تبلیغی جماعت
کووِڈ19کا چیلنج اور تبلیغی جماعت
author img

By

Published : Apr 6, 2020, 5:52 PM IST

چھ اپریل تک بھارت میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور یہ تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔

ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایک اندازہ کے مطابق متاثرین میں سے 30 فیصد تبلیغی جماعت کے اُس اجتماع میں شریک رہے ہیں، جو دہلی میں مارچ کے مہینہ میں منعقد ہوا تھا۔ دہلی کے نظام الدین علاقے میں اس سالانہ مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے کے بعد لوگ واپس ملک کے مختلف حصوں میں چلے گئے اور پھر پتہ چلا کہ جو لوگ اجتماع میں شرکت کرکے لوٹے ہیں اُن میں بعض وائرس کا شکار ہیں۔

بھارت میں وبا کی وجہ سے جو ریاستیں متاثر ہوچکی ہیں، اُن میں دہلی، آندھرا پردیش، تنلگانہ، اتر پردیش، راجستھان، جموں و کشمیر، آسام، کرناٹک، اتراکھنڈ، ہریانہ، مہاراشتڑ، ہماچل پردیش، کیرلا، اروناچل پردیش اور جھار کھنڈ شامل ہیں۔

صحت عامہ سے جڑے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں یکسر اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرکے آئے لوگ خود کو پیش کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ کیونکہ ان میں مزید لوگوں کی نشاندہی نہیں ہوئی ہے جن کے ساتھ وہ نظام الدین میں اجتماع کے دوران رابطے میں رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اس رویے کی وجہ سے اس وقت بھارت میں غم و غصہ ہے۔

جبکہ جانبدار ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی رپورٹنگ کے نتیجے میں تبلیغی جماعت کے خلاف غم و غصہ مزید پھیل رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کی وجہ سے مسلم مخالف جذبات بھی پھیل رہے ہیں۔ چونکہ سماجی اور سیاسی سطح پر پہلے ہی سے لوگ مذہبی بنیادوں پر منقسم ہیں اور وبا کو بھی مذہب کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے غلط افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔

دوسری جانب سیاسی مخالفین بی جے پی اور آر ایس ایس پر الزام لگار ہے کہ وہ ملک میں اس ایمرجنسی کی حالت میںبھی فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا رہی ہیں۔

اس طرح کی صورتحال میں مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کا وہ بیان قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو متنبہ کیا کہ وہ کووِڈ19 کے حوالے سے کسی قسم کی فرقہ واریت پھیلانے اور عوام میں اختلاف رائے پیدا کرنے کی کوششوں سے گریز کریں۔

چار اپریل کو نئی دہلی میں منعقدہ ایک میٹنگ میں بی جے پی لیڈروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ اس طرح کی ہدایات میڈیا کو بھی جاری کردی گئی ہیں۔ میٹنگ میں بتایا گیا کہ ’’اس وقت ہم پر قوم کی رہنمائی کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔وائرس نے دنیا بھر میں ہر کسی کو بلا امتیاز مذہب غیر محفوظ بنادیا ہے ۔ اس لئے کوئی بھی اشتعال انگیز بیان جاری نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

بی جے پی کے ایک لیڈر نے بتایا ، ’’تبلیغی جماعت کی قیادت پر عائد کئی الزامات کے باوجو د اشتعال انگیز بیانات دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ہدایات ملی ہیں کہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ مسئلہ نہ بنایا جائے ۔ ہمیں مل جل کر اس وائرس کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔

تبلیغی جماعت کی جانب سے کووِڈ19 کے حوالے سے حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے کے موثر شواہد موجود ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا تبلیغی جماعت نے یہ خلاف وزری اپنی نااہلیت کی وجہ سے کی یا پھر اپنے گمراہ کن مذہبی یقین کی وجہ سے۔

اس سوال کا جواب صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے، جب اس معاملے کی ایک غیر جابندار اور حقیقت پسندانہ تحقیق ہو۔ چونکہ تبلیغی جماعت سے متعلق عالمی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ مذہبی شدت پسندی کے حامل ہیں اور اس سے جہاد، دہشت گردی وغیر جیسے تاثرات جڑے ہیں۔ اس لئے اس معاملے کی تحقیق کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔

لیکن یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جب سے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع سے جڑا معاملہ سامنے آیا ہے، میڈیا کا ایک طبقہ جارحانہ طریقے سے رپورٹنگ کررہا ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ ان جھوٹی خبروں میں دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کو بھی تبلیغی جماعت کی نظام الدین میں منعقد ہوئے اجتماع سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس صورتحال کے حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس رجحان کو شروع میں ہی دبانے کے اقدامات کرتی ،لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔

اس لحاظ سے مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کی پہل واقعی قابل ستائش ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں بی جے پی کے اراکین اور سوشل میڈیا پر سرگرم لوگ متوجہ ہوں گے اور وہ کووِڈ 19 کے حوالے سے اشتعال انگیزی اور مذہبی جذبات بھڑکانے سے گریز کریں گے۔

اس دوران یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ بعض ریاستوں نے میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کے نام ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ 19 سے پورا ملک اور اسکی ایک ارب سے زائد آبادی متاثر ہے، سماج میں انتشار نہ پھیلائیں۔ اس ضمن میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھے ٹھاکرے کی قابل ستائش قدم ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز پھیلانے کے خلاف سخت وارننگ جاری کردی ہے۔ انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام میں خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیاہے۔

وزیر اعلیٰ اُدھے ٹھاکرے نے اپنے اس پیغام میں کہا کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرکے ( مہاراشٹر میں اپنے گھروں کو ) لوٹنے والے سو فیصد لوگوں کی نشاندہی ہوچکی ہے اور انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’’کورونا وائرس کی طرح ایک اور وائرس پھیل رہا ہے ، جس کے اثرات سماج کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مرتب ہورہے ہیں۔ یہ وائرس فیک نیوز اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا وائرس ہے۔

ہم مہاراشٹر کو اس بحران سے محفوظ رکھیں گے ، لیکن اگر کوئی اشتعال انگیز فیک نیوز پھیلانے یا جھوٹے ویڈیو عام کرنے کا مرتکب ہوا تو قانون اُن سے نمٹ لے گا۔ انہیں معاف نہیں کیا جائے گا ۔ آپ مذاق میں بھی ایسی حرکت نہ کریں۔‘‘

یہ ایک اہم مشورہ ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ دوسری ریاستیں بھی ایسا ہی کریں گی ۔ بھارت کو اکیس روزہ لاک ڈاؤن کے بعد اپریل کے وسط میں نارمل حالات میں واپس آنا ہوگا۔ اس لئے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جانی چاہیے، جس کی وجہ سے ملک میں کووِڈ19 کو لیکر کوئی انتشار پھیل جائے ۔

چھ اپریل تک بھارت میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور یہ تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔

ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایک اندازہ کے مطابق متاثرین میں سے 30 فیصد تبلیغی جماعت کے اُس اجتماع میں شریک رہے ہیں، جو دہلی میں مارچ کے مہینہ میں منعقد ہوا تھا۔ دہلی کے نظام الدین علاقے میں اس سالانہ مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے کے بعد لوگ واپس ملک کے مختلف حصوں میں چلے گئے اور پھر پتہ چلا کہ جو لوگ اجتماع میں شرکت کرکے لوٹے ہیں اُن میں بعض وائرس کا شکار ہیں۔

بھارت میں وبا کی وجہ سے جو ریاستیں متاثر ہوچکی ہیں، اُن میں دہلی، آندھرا پردیش، تنلگانہ، اتر پردیش، راجستھان، جموں و کشمیر، آسام، کرناٹک، اتراکھنڈ، ہریانہ، مہاراشتڑ، ہماچل پردیش، کیرلا، اروناچل پردیش اور جھار کھنڈ شامل ہیں۔

صحت عامہ سے جڑے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں یکسر اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرکے آئے لوگ خود کو پیش کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ کیونکہ ان میں مزید لوگوں کی نشاندہی نہیں ہوئی ہے جن کے ساتھ وہ نظام الدین میں اجتماع کے دوران رابطے میں رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اس رویے کی وجہ سے اس وقت بھارت میں غم و غصہ ہے۔

جبکہ جانبدار ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی رپورٹنگ کے نتیجے میں تبلیغی جماعت کے خلاف غم و غصہ مزید پھیل رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کی وجہ سے مسلم مخالف جذبات بھی پھیل رہے ہیں۔ چونکہ سماجی اور سیاسی سطح پر پہلے ہی سے لوگ مذہبی بنیادوں پر منقسم ہیں اور وبا کو بھی مذہب کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے غلط افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔

دوسری جانب سیاسی مخالفین بی جے پی اور آر ایس ایس پر الزام لگار ہے کہ وہ ملک میں اس ایمرجنسی کی حالت میںبھی فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا رہی ہیں۔

اس طرح کی صورتحال میں مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کا وہ بیان قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو متنبہ کیا کہ وہ کووِڈ19 کے حوالے سے کسی قسم کی فرقہ واریت پھیلانے اور عوام میں اختلاف رائے پیدا کرنے کی کوششوں سے گریز کریں۔

چار اپریل کو نئی دہلی میں منعقدہ ایک میٹنگ میں بی جے پی لیڈروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ اس طرح کی ہدایات میڈیا کو بھی جاری کردی گئی ہیں۔ میٹنگ میں بتایا گیا کہ ’’اس وقت ہم پر قوم کی رہنمائی کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔وائرس نے دنیا بھر میں ہر کسی کو بلا امتیاز مذہب غیر محفوظ بنادیا ہے ۔ اس لئے کوئی بھی اشتعال انگیز بیان جاری نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

بی جے پی کے ایک لیڈر نے بتایا ، ’’تبلیغی جماعت کی قیادت پر عائد کئی الزامات کے باوجو د اشتعال انگیز بیانات دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ہدایات ملی ہیں کہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ مسئلہ نہ بنایا جائے ۔ ہمیں مل جل کر اس وائرس کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔

تبلیغی جماعت کی جانب سے کووِڈ19 کے حوالے سے حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے کے موثر شواہد موجود ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا تبلیغی جماعت نے یہ خلاف وزری اپنی نااہلیت کی وجہ سے کی یا پھر اپنے گمراہ کن مذہبی یقین کی وجہ سے۔

اس سوال کا جواب صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے، جب اس معاملے کی ایک غیر جابندار اور حقیقت پسندانہ تحقیق ہو۔ چونکہ تبلیغی جماعت سے متعلق عالمی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ مذہبی شدت پسندی کے حامل ہیں اور اس سے جہاد، دہشت گردی وغیر جیسے تاثرات جڑے ہیں۔ اس لئے اس معاملے کی تحقیق کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔

لیکن یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جب سے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع سے جڑا معاملہ سامنے آیا ہے، میڈیا کا ایک طبقہ جارحانہ طریقے سے رپورٹنگ کررہا ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ ان جھوٹی خبروں میں دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کو بھی تبلیغی جماعت کی نظام الدین میں منعقد ہوئے اجتماع سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس صورتحال کے حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس رجحان کو شروع میں ہی دبانے کے اقدامات کرتی ،لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔

اس لحاظ سے مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کی پہل واقعی قابل ستائش ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں بی جے پی کے اراکین اور سوشل میڈیا پر سرگرم لوگ متوجہ ہوں گے اور وہ کووِڈ 19 کے حوالے سے اشتعال انگیزی اور مذہبی جذبات بھڑکانے سے گریز کریں گے۔

اس دوران یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ بعض ریاستوں نے میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کے نام ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ 19 سے پورا ملک اور اسکی ایک ارب سے زائد آبادی متاثر ہے، سماج میں انتشار نہ پھیلائیں۔ اس ضمن میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھے ٹھاکرے کی قابل ستائش قدم ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز پھیلانے کے خلاف سخت وارننگ جاری کردی ہے۔ انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام میں خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیاہے۔

وزیر اعلیٰ اُدھے ٹھاکرے نے اپنے اس پیغام میں کہا کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرکے ( مہاراشٹر میں اپنے گھروں کو ) لوٹنے والے سو فیصد لوگوں کی نشاندہی ہوچکی ہے اور انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’’کورونا وائرس کی طرح ایک اور وائرس پھیل رہا ہے ، جس کے اثرات سماج کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مرتب ہورہے ہیں۔ یہ وائرس فیک نیوز اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا وائرس ہے۔

ہم مہاراشٹر کو اس بحران سے محفوظ رکھیں گے ، لیکن اگر کوئی اشتعال انگیز فیک نیوز پھیلانے یا جھوٹے ویڈیو عام کرنے کا مرتکب ہوا تو قانون اُن سے نمٹ لے گا۔ انہیں معاف نہیں کیا جائے گا ۔ آپ مذاق میں بھی ایسی حرکت نہ کریں۔‘‘

یہ ایک اہم مشورہ ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ دوسری ریاستیں بھی ایسا ہی کریں گی ۔ بھارت کو اکیس روزہ لاک ڈاؤن کے بعد اپریل کے وسط میں نارمل حالات میں واپس آنا ہوگا۔ اس لئے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جانی چاہیے، جس کی وجہ سے ملک میں کووِڈ19 کو لیکر کوئی انتشار پھیل جائے ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.