ETV Bharat / bharat

مودی نے الیکشن کمیشن کا وقار خاک میں ملادیا: کانگریس

کانگریس نے وزیر اعظم نریندرمودی پر تمام آئینی اداروں کے وقار کو تباہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے رکن اشوک لواسا کا انکشاف اس بات کاثبوت ہے کہ کمیشن بھی مودی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے۔

رندیپ سنگھ سرجے والا
author img

By

Published : May 18, 2019, 11:39 PM IST

کانگریس میڈیا سیل کے انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی میٹنگز میں مسٹر لواسا کے شامل نہیں ہونے کی وجہ ظاہر ہونے سے اس باوقار ادارہ کاوقار خاک میں مل گیا ہے۔
انہوں نے اسے کمیشن کی تاریخ کا سیاہ دن اور جمہوریت کا قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس انکشاف سے واضح ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن مسٹر مودی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے۔
مسٹر سرجے والا نے مسٹر لواسا کے انکشاف سے متعلق ایک خبر ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسٹر لواسا نے کمیشن کی میٹنگز میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا کو چار مئی کو خط لکھ کرشکایت کی تھی کہ کمیشن کی میٹنگز میں اختلافی فیصلوں کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا ہے اور ایسی میٹنگز میں شامل ہونے کے لئے انہیں مجبور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میٹنگز میں اپنی بات نہیں سنے جانے سے ناراض مسٹر لواسا نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کمیشن کی میٹنگز میں ضابطوں کو نظر انداز کرکے اختلافی فیصلے کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا ہے تو کمیشن کی غیر جانبداری ہی ختم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کی میٹنگز میں اختلافی فیصلے کو ریکارڈ نہیں کرنے کا دباو مودی حکومت کا رہا ہے کیوں کہ ان میٹنگز میں مسٹر مودی کو مثالی ضابطہ اخلاق کا قصور وار ہونے کا اختلافی فیصلہ کیا گیا تھا۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے قانون 1991کے تحت کمیشن کی میٹنگز میں اگر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کے درمیان کسی معاملے پر عدم اتفاق ہوتا ہے تو اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اختلافی فیصلے کو بھی ریکارڈ کئے جانے کا التزام ہے تاہم مودی حکومت نے اس التزام کی اہمیت ہی ختم کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس نے مسٹر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کے خلاف لوک سبھا الیکشن کے دوران مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گیارہ شکایتیں درج کرائیں لیکن کمیشن نے ان شکایتوں پر توجہ نہیں دی انہوں نے کہا کہ کمیشن جب اپنی میٹنگوں میں مسٹر مودی اور مسٹر شاہ کی جوڑی کو ان شکایتوں میں کلین چٹ دینے میں مصروف تھی اسی دوران مسٹر لواسا نے کئی مواقع پر کمیشن کے فیصلوں سے عدم اتفاق کیا لیکن ان کے عدم اتفاق کو ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
مسٹر سرجے والا نے الزام لگایا کہ مسٹر لواسا کے اختلافی ووٹ کو کمیشن کی میٹنگوں کی تفصیلات میں اس لئے درج نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے مسٹر مودی کو نوٹس جاری کرنے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس انکشاف کے بعدالیکشن کمیشن کا وقار پوری طرح خاک میں مل گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ مسٹر مودی نے صرف الیکشن کمیشن جیسے باوقار ادارہ کو ہی تباہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے سپریم کورٹ تک میں مداخلت کی ہے جس کی وجہ سے ججوں نے عوام میں جاکر بیان دئے۔
اسی طرح سے مودی حکومت کی بڑھتی مداخلت کی وجہ سے ریزرو بینک کے گورنر نے بھی استعفی دیا۔ سی بی آئی کے کام کاج پر دباو بنانے کے لئے اس کے ڈائریکٹر کوہٹایا گیا اور سی وی سی کو کھوکھلی رپورٹ دینے کے لئے مجبور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کڑی میں اب الیکشن کمیشن کا وقار بھی خاک میں مل گیا ہے۔

کانگریس میڈیا سیل کے انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی میٹنگز میں مسٹر لواسا کے شامل نہیں ہونے کی وجہ ظاہر ہونے سے اس باوقار ادارہ کاوقار خاک میں مل گیا ہے۔
انہوں نے اسے کمیشن کی تاریخ کا سیاہ دن اور جمہوریت کا قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس انکشاف سے واضح ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن مسٹر مودی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے۔
مسٹر سرجے والا نے مسٹر لواسا کے انکشاف سے متعلق ایک خبر ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسٹر لواسا نے کمیشن کی میٹنگز میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا کو چار مئی کو خط لکھ کرشکایت کی تھی کہ کمیشن کی میٹنگز میں اختلافی فیصلوں کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا ہے اور ایسی میٹنگز میں شامل ہونے کے لئے انہیں مجبور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میٹنگز میں اپنی بات نہیں سنے جانے سے ناراض مسٹر لواسا نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کمیشن کی میٹنگز میں ضابطوں کو نظر انداز کرکے اختلافی فیصلے کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا ہے تو کمیشن کی غیر جانبداری ہی ختم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کی میٹنگز میں اختلافی فیصلے کو ریکارڈ نہیں کرنے کا دباو مودی حکومت کا رہا ہے کیوں کہ ان میٹنگز میں مسٹر مودی کو مثالی ضابطہ اخلاق کا قصور وار ہونے کا اختلافی فیصلہ کیا گیا تھا۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے قانون 1991کے تحت کمیشن کی میٹنگز میں اگر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کے درمیان کسی معاملے پر عدم اتفاق ہوتا ہے تو اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اختلافی فیصلے کو بھی ریکارڈ کئے جانے کا التزام ہے تاہم مودی حکومت نے اس التزام کی اہمیت ہی ختم کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس نے مسٹر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کے خلاف لوک سبھا الیکشن کے دوران مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گیارہ شکایتیں درج کرائیں لیکن کمیشن نے ان شکایتوں پر توجہ نہیں دی انہوں نے کہا کہ کمیشن جب اپنی میٹنگوں میں مسٹر مودی اور مسٹر شاہ کی جوڑی کو ان شکایتوں میں کلین چٹ دینے میں مصروف تھی اسی دوران مسٹر لواسا نے کئی مواقع پر کمیشن کے فیصلوں سے عدم اتفاق کیا لیکن ان کے عدم اتفاق کو ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
مسٹر سرجے والا نے الزام لگایا کہ مسٹر لواسا کے اختلافی ووٹ کو کمیشن کی میٹنگوں کی تفصیلات میں اس لئے درج نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے مسٹر مودی کو نوٹس جاری کرنے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس انکشاف کے بعدالیکشن کمیشن کا وقار پوری طرح خاک میں مل گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ مسٹر مودی نے صرف الیکشن کمیشن جیسے باوقار ادارہ کو ہی تباہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے سپریم کورٹ تک میں مداخلت کی ہے جس کی وجہ سے ججوں نے عوام میں جاکر بیان دئے۔
اسی طرح سے مودی حکومت کی بڑھتی مداخلت کی وجہ سے ریزرو بینک کے گورنر نے بھی استعفی دیا۔ سی بی آئی کے کام کاج پر دباو بنانے کے لئے اس کے ڈائریکٹر کوہٹایا گیا اور سی وی سی کو کھوکھلی رپورٹ دینے کے لئے مجبور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کڑی میں اب الیکشن کمیشن کا وقار بھی خاک میں مل گیا ہے۔

Intro:Body:

nws


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.