بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں 6 دسمبر 1992ء کو ہندو کار سیوکوں کے ایک گروہ نے سولہویں صدی کی تعمیر شدہ بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ یہ سانحہ ایودھیا میں منعقد سیاسی جلسے کے بعد پیش آیا جب جلسے نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
تمام شواہدات اور دستاویزات کے پیش نظر 09 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا تھا، آیا وہ فیصلہ کس کے حق میں صحیح ہوا یا غلط یا وہ کس بنیاد کے پیش نظر تھا یقینا اس تعلق سے کچھ کہنا بھارت کی سب سے بڑی عدالت عظمی کی توہین اور بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہو گی لیکن اب رام مندر بھومی پوجن پر وزیر اعظم نریندر مودی کی شمولیت اور بدست وزیر اعظم رام مندر کی پہلی اینٹ کا رکھا جانا تمام دانشوروں کے لیے باعث تشویش ہے۔
بھارت کی گنگا جمنی تہذیب اور جمہوری نظام کا کیا تقاضہ تھا ان باتوں کو بخوبی ملک کے وزیر اعظم سے بہتر کون جان سکتا ہے، آیا ان سارے اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال کر ان کا یہ عمل کس طور پر درست ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ان حالات کے پیش نظر مسلم رہنماؤں نے اسے جمہوریت کا قتل بتایا ہے، انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر کا کہنا ہے کہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کا کسی مذہبی تقریبات میں اس طرح سے شریک ہونا بھارتی آئین کے خلاف ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ بھارتی وزیراعظم جس نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے وقت بھارتی آئین کی قسم کھائی تھی کہ وہ غیر مذہب پرست اور غیر فرقہ پرست رہتے ہوئے ملک کی خدمت کریں گے لیکن آج بھومی پوجن میں اہم کردار نبھاتے ہوئے مذہب پرستی کی نظیر پیش کی ہے۔
مزید پڑھیں:
رام مندر میں بھومی پوجن کے بعد مودی کا خطاب
وہیں سماجی کارکنان و آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اندور کے صدر نے کہا کہ 'رام مندر- بابری مسجد کے معاملے پر ایک لمبے عرصے تک تمام مسلم تنظیمیں، جمعیت علمائے ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے لڑائی لڑی لیکن آستھا کی بنیاد پر فیصلہ آیا۔ کیوں کہ ذہن بنالیا گیا تھا کہ جو بھی فیصلہ آئے گا اسے قبول کیا جائے گا اسی کے تحت قبول بھی کیا گیا'۔