کیرن سیکٹر کے برف پوش دروں میں 5 اپریل کو بھارتی فوج کی اسپیشل فورسز کے پانچ کمانڈوز کی ہلاکت کے بعد دفاعی حلقوں میں یہ بحث پھر چھڑ گئی ہے کہ دراندازی کے اس مسلسل مسئلے کو کیسے ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔
یہ کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے عین اس جگہ پر اتارے گئے تھے جہاں عسکریت پسندوں کے پیروں کے نشانات موجود تھے لیکن حادثاتی طور برف دھنس جانے کی وجہ سے وہ اس جگہ گرپڑے جہاں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے۔ دونوں طرفین کے مابین دوبدو بھڑپ ہوئی جس میں یہ کمانڈوز مارے گئے۔
لائن آف کنٹرول کی تاربندی، عسکریت پسندوں کے داخلے میں مانع نہیں ہوسکی ہےتاہم اسلحہ بردار ان مینڈ ایریل وہیکل ( ایک ہوائی مشین جس پر کوئی سوار نہیں ہوتا) اور لڑاکا ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے اس صورتحال کو بھارت کے حق میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
شمالی کمان کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ فی الحال بھارتی فوج کے پاس آرمڈ یو اے وی نہیں ہیں لیکن انکے مطابق امریکہ نے افغانستان میں ان مشینوں کو عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو تیر بہدف نشانہ بنانے میں کافی کامیابی حاصل کی۔
انکے مطابق لڑاکا ہیلی کاپٹرز کو بھی ایل او سی پر اثر انداز طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ افغانستان اور عراق میں یہ تجربات بہت بہتر رہے ہیں۔ ہوڈا کے مطابق افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج کے پاس ابھی یہ دونوں صلاحیتیں دستیاب نہیں ہیں۔ جنرل ہوڈا، کشمیر کی زمینی صورتحال سے متعلق اہم دفاعی تجزیہ نگار مانے جاتے ہیں۔ انکی قیادت میں ہی بھارتی فوج نے ستمبر 2016 میں ’سرجیکل اسٹرائکس‘ کی تھیں۔
انکے مطابق اگرچہ بھارت کے پاس اس وقت یہ جنگی سازو سامان موجود نہیں ہے تاہم حالیہ تقصانات کے پس منظر میں حکومت کو چاہئے کہ انکے حصول کو ملک کی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔
یہ مانا جارہا ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ اور اسرائیل، اس قسم کے سازوسامان کو برآمد کرنے کیلئے بھارت کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب بھارت نے جن چھ اے ایچ 64 ای اپاچے ہیلی کا پٹرز کیلئے آرڈر دیا ہے، ان میں سے پہلا ہیلی کاپٹر 2023 میں موصول ہوگا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ اپاچے ہیلی کاپٹر، یو اے وی کو بھی کنٹرول کرسکتا ہے جو ایل او سی جیسی دشوار گزار سرزمین پر فوج کیلئے کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عسکریت پسند رات کے اندھیرے میں کنٹرول لائن عبور کرتے ہیں اور بارہا انہیں پاکستانی فوج کی موافقانہ فائرنگ کی آڑ بھی مل جاتی ہے۔
دراندازی کا سلسلہ موسم سرما ختم ہوتے ہی مارچ اور اپریل کے مہینوں میں شروع ہوتا ہے اور اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔
اس برس درندازی کو روکنا کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ کشمیر میں پہلا موسم گرما ہوگا۔ ریاست کی خصوصی حیثیت گزشتہ برس 5 اگست کو ختم کی گئی جس کے بعد یہ ریاست مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کی گئی۔
علاوہ ازیں ماہ رمضان 23 اپریل کو شروع ہوگا۔ اس مہینے کے دوران کئی عسکریت پسند ’جہاد‘ میں شرکت کیلئے کشمیر میں وارد ہونے کے خواہش مند ہوسکتے ہیں تاکہ وہ ’بھارت میں معتوب مسلمانوں‘ کی مدد کرسکیں۔
لائن آف کنٹرول پر 8 سے 12 فٹ اونچی خاردار دو جہتی دیوار 740 میں سے 550 کلومیٹر پر 1990 کی دہائی سے نصب کی گئی ہے لیکن یہ دیوار موسمی حالات کی وجہ سے کئی جگہوں پر ٹوٹ گئی ہے۔ حکام نے 40 ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں سے دراندازی کی جاسکتی ہے۔ کئی جگہوں پر یہ دیوار نصب نہیں کی جاسکی ہے کیونکہ ان مقامات پر ایل او سی یا تو دریا اور نالوں سے گزرتی ہے یا ایسی دشوار گزار ہے کہ وہاں تار لگانا ممکن نہیں ہے۔