ETV Bharat / bharat

'شعور بیداری سے بچوں کے خلاف جرائم میں کمی لائی جاسکتی'

author img

By

Published : Sep 4, 2019, 1:20 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 9:59 AM IST

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے خلاف ہورہی زیادتیوں میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔نیشنل کرائم بیورو کے مطابق سال 2015 میں 94،172 معاملہ درج ہوئے ہیں، وہیں یہ تعداد سال 2016 میں بڑھ کے 1،06،958 ہوگئے ہیں۔

'شعور بیداری سے بچوں کے خلاف جرائم میں کمی لائی جاسکتی'

بچوں سے جنسی زیادتی کے تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔والدین اپنے بچوں کو اس طرح کے ملزمین سے محفوظ رکھنے کے لیے بے بس ہیں۔جنسی زیادتی کے روک تھام کے لیے نافذ کی گئی سخت قوانین اور سزائیں بھی ان معصوم کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ساتھ میں معاملے کی جانچ میں تاخیر اور جرائم کو حل کرنے میں ناکامی بھی اس مسئلے میں مزید اضافے کے سبب بن رہی ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے ضلع سانگریڈی میں تین برس کی بچی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔وہیں ضلع وقار آباد میں پڑوسی نے پانچ برس کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ تلنگانہ کے ہی ضلع ورنگل میں 13 برس کی لڑکی کے ساتھ تین لوگوں نے اجتماعی جنسی زیادتی کی، جس کی وجہ سے متاثرہ نے خود کشی کرلی۔ریاست آسام میں ایک شخص کو اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ریاست ہریانہ کے ضلع گروگرام میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا، جس نے اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی استحصال کیا۔ریاست چھتیس گڑھ کے ایک اسکول میں ہم جماعتوں نے لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی۔اس معاملے میں آئی پی سی دفعہ 376 کے تحت، 354 اے اور پوسکو ایکٹ کے دفعہ 4 کے تحت ملزموں کو سزا سنائی گئی۔بھارت میں ایسے واقعات روزآنہ ہی پیش آرہے ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر معاملے ایسے ہیں جو پوشیدہ ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے خلاف ہورہی زیادتیوں میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔نیشنل کرائم بیورو کے مطابق سال 2015 میں 94،172 معاملہ درج ہوئے ہیں، وہیں یہ تعداد سال 2016 میں بڑھ کے 1،06،958 ہوگئے ہیں۔ریاست اترپردیش، مدھیہ پردیش، دہلی اور مغربی بنگال میں 50 فیصدی سے بھی زائد معاملے درج کیے گئے ہیں۔وہیں بچوں سے متعلق معاملات میں جنسی زیادتی کا معاملہ 18 فیصد ہے۔ پوسکو ایکٹ کے تحت 34.4 فیصد معاملے کو درج کیا گیا ہے۔بچوں سے جنسی زیادتی معاملے کی تحقیقات کچھوے کی رفتار سے چل رہی ہے۔کم ہی ایسے واقعات ہیں جن میں ملزمین کو سزا ملی ہو۔ سال 2015 اور 2016 کے درمیان 1.06 لاکھ مقدمے درج ہوئے ہیں لیکن ان میں سے محض 8.86 فیصدی معاملے کی تحقیقات ہو پائی ہے۔ زیادہ تر مقدمات کو ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے خارج کردیا جاتا ہے۔لمبے وقفے سے عدالتوں میں زیر التواء معاملے میں جلد از جلد فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں ڈیڑھ مہینے کے اندر فاسٹ ٹریک عدالت نے نو ماہ کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے معاملے میں ملزم کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

اس معاملے میں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہوا ہے۔لوگ اس نشے کی وجہ سے اخلاقیات اور اپنے تہذیب و تمدن کو نظرانداز کررہے ہیں۔ہمیں ضرورت ہے کہ نوجوان نسلوں کو انسانی اقدار اور تعلقات کے بارے میں بیدار کیا جائے۔اسکول کے نصاب میں جنسی زیادتی سے متعلق مشق کو شامل کرنا چاہیے۔بچوں سے جنسی زیادتی سے متعلق سخت قوانین اور ایکٹ کا نفاذ کرنا چاہیے۔خاص طور پر گاؤں اور شہروں میں مختلف سطحوں پر کام کررہے اسٹاف کو پوسکو ایکٹ کے بارے میں اچھی سمجھ ہونی ضروری ہے۔والدین، استاتذہ، آنگن باڑی، آشاہ اسٹاف، خاتون اور اطفال ترقیاتی وزارت اور نرس اس بات سے بیدار رہیں۔اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دے کر ہی ہم بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں کمی لاسکتے ہیں۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔والدین اپنے بچوں کو اس طرح کے ملزمین سے محفوظ رکھنے کے لیے بے بس ہیں۔جنسی زیادتی کے روک تھام کے لیے نافذ کی گئی سخت قوانین اور سزائیں بھی ان معصوم کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ساتھ میں معاملے کی جانچ میں تاخیر اور جرائم کو حل کرنے میں ناکامی بھی اس مسئلے میں مزید اضافے کے سبب بن رہی ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے ضلع سانگریڈی میں تین برس کی بچی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔وہیں ضلع وقار آباد میں پڑوسی نے پانچ برس کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ تلنگانہ کے ہی ضلع ورنگل میں 13 برس کی لڑکی کے ساتھ تین لوگوں نے اجتماعی جنسی زیادتی کی، جس کی وجہ سے متاثرہ نے خود کشی کرلی۔ریاست آسام میں ایک شخص کو اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ریاست ہریانہ کے ضلع گروگرام میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا، جس نے اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی استحصال کیا۔ریاست چھتیس گڑھ کے ایک اسکول میں ہم جماعتوں نے لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی۔اس معاملے میں آئی پی سی دفعہ 376 کے تحت، 354 اے اور پوسکو ایکٹ کے دفعہ 4 کے تحت ملزموں کو سزا سنائی گئی۔بھارت میں ایسے واقعات روزآنہ ہی پیش آرہے ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر معاملے ایسے ہیں جو پوشیدہ ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے خلاف ہورہی زیادتیوں میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔نیشنل کرائم بیورو کے مطابق سال 2015 میں 94،172 معاملہ درج ہوئے ہیں، وہیں یہ تعداد سال 2016 میں بڑھ کے 1،06،958 ہوگئے ہیں۔ریاست اترپردیش، مدھیہ پردیش، دہلی اور مغربی بنگال میں 50 فیصدی سے بھی زائد معاملے درج کیے گئے ہیں۔وہیں بچوں سے متعلق معاملات میں جنسی زیادتی کا معاملہ 18 فیصد ہے۔ پوسکو ایکٹ کے تحت 34.4 فیصد معاملے کو درج کیا گیا ہے۔بچوں سے جنسی زیادتی معاملے کی تحقیقات کچھوے کی رفتار سے چل رہی ہے۔کم ہی ایسے واقعات ہیں جن میں ملزمین کو سزا ملی ہو۔ سال 2015 اور 2016 کے درمیان 1.06 لاکھ مقدمے درج ہوئے ہیں لیکن ان میں سے محض 8.86 فیصدی معاملے کی تحقیقات ہو پائی ہے۔ زیادہ تر مقدمات کو ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے خارج کردیا جاتا ہے۔لمبے وقفے سے عدالتوں میں زیر التواء معاملے میں جلد از جلد فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں ڈیڑھ مہینے کے اندر فاسٹ ٹریک عدالت نے نو ماہ کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے معاملے میں ملزم کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

اس معاملے میں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہوا ہے۔لوگ اس نشے کی وجہ سے اخلاقیات اور اپنے تہذیب و تمدن کو نظرانداز کررہے ہیں۔ہمیں ضرورت ہے کہ نوجوان نسلوں کو انسانی اقدار اور تعلقات کے بارے میں بیدار کیا جائے۔اسکول کے نصاب میں جنسی زیادتی سے متعلق مشق کو شامل کرنا چاہیے۔بچوں سے جنسی زیادتی سے متعلق سخت قوانین اور ایکٹ کا نفاذ کرنا چاہیے۔خاص طور پر گاؤں اور شہروں میں مختلف سطحوں پر کام کررہے اسٹاف کو پوسکو ایکٹ کے بارے میں اچھی سمجھ ہونی ضروری ہے۔والدین، استاتذہ، آنگن باڑی، آشاہ اسٹاف، خاتون اور اطفال ترقیاتی وزارت اور نرس اس بات سے بیدار رہیں۔اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دے کر ہی ہم بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں کمی لاسکتے ہیں۔

Intro:Body:

et


Conclusion:
Last Updated : Sep 29, 2019, 9:59 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.