چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے حال ہی میں عدالتی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے اس تلخ حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ فوجداری معاملوں میں ایک ملزم کی شنوائی تب ہوتی ہے جب اس نے سزا کی میعاد مکمل کر لی ہوتی ہے اور سول مقدموں کا فیصلہ تو دوسری یا تیسری نسل کو سنایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس کا یہ اعتراف ملک میں رائج اس عدالتی نظام کی قلعی کھولتا ہےجس میں انصاف کی فراہمی حد درجہ تاخیر کا شکار ہے۔ شنوائی میں تاخیر اور غریب وپسماندہ طبقات کی قانون تک عدم رسائی اس وقت ہمارے عدالتی نظام کے سامنے سب سے بڑے مسائل ہیں۔
نیشنل لیگل انفارمیشن سسٹم کے مطابق 1979میں ریاست آندھرا پردیش کے مشرقی گوداوری ضلع کے کوٹھاپیٹا کے مقام پر ایک قتل ہوا تھا۔ یہ کیس عدالت میں 1982 میں پیش ہوا لیکن اسکی پہلی سماعت جنوری 2018 میں ضلع سیشن جج کے سامنے ہوئی۔ اس کیس میں عدالتی کارروائی شروع ہونے میں 4 دہائیوں کا عرصہ لگ گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی عدالتوں میں تین دہائیوں سے زائد کے عرصے سے قدیم تقریبا 76000کیسز زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 140 مقدمات تو 60برسوں سے سماعت ہی نہیں ہوئی۔ اگر بات ملک کی جائے تو مجموعی طور پر جولائی 2019 تک ملک کی مختلف عدالتوں میں 3کروڑ 13لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
جس میں ایک برس سے کم پرانے کیسز کی تعداد تقریبا ایک کروڑ 20 لاکھ ہے۔
وہیں ایک سے تین برس پرانے کیسز کی تعداد 81 لاکھ ہے۔
تین سے پانچ برس پرانے کیسز کی تعداد تقریبا 42 لاکھ ہے۔
پانچ سے دس برس پرانے کیسز کی تعداد تقریبا 45 لاکھ ہے۔
جبکہ دس سے بیس برس پرانے کیسز کی تعداد 20 لاکھ 22 ہزار ہیں۔
بیس سے تیس برس پرانے کیسز کی تعداد تقریبا چار لاکھ ہے۔
وہیں تیس برس پرانے کیسز کی تعداد تقریبا 76 ہزار ہے۔
عدالتی مقدمات میں غیر ضروری تاخیر سے عام لوگوں پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ ملزم ، برسہابرس تک جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ انصاف کی عدم فراہمی ان کے انسانی حقوق کو سلب کررہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار لاکھ 33 ہزار قیدی ملک کی 1400جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ 93ہزار ایسے ہیں جن کا مقدمہ چل رہا ہے لیکن جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔عام طور پر ایسے کیسز کو انڈر ٹرائل کہا جاتا ہے۔
ملک کے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے ہائی کورٹ کے سبھی چیف جسٹسز کو لکھا تھا کہ وہ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کے تحت وہ مقدمات حل کئے جاسکیں جو پانچ برسوں سے زیر التوا ہوں یا جن کی سماعت نہیں ہوئی ہے۔
ایک تنظیم 'دکش' کی سروے کے مطابق 21فیصد انڈر ٹرائلز برسوں سے جیلوں میں بند ہیں، اور جن الزامات کے تحت انہیں قید کیا گیا ہے، ان کے تحت ملنے والی مدت قید وہ پہلے ہی جیل میں صرف کرچکے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اگر واقعی کوئی جرم کیا ہے تو اس کے لئے وہ مقررہ مدت سے زیادہ سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔یہ طریقہ کار فطری قانون کے عین مطابق نہیں ہے۔
اسی طرح اقتصادی جرائم اور ایسے کیسز کی سماعت کا معاملہ بھی کافی تشویشناک ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق 52 ہزار کروڑ روپے مالیت کے منصوبے صرف اس وجہ سے بند پڑے ہیں کیونکہ ان سے متعلق مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔
یہی نہیں ملک کی پیداواری صلاحیت کو 50ہزار 287 کروڑ روپے کا خسارہ صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا وقت کورٹ کچہریوں میں صرف کرنا پڑتا ہے۔
دکش کی سروے کے مطابق عدالتی مقدمات میں مصروف لوگ، صرف کورٹ میں حاضری اور دیگر اخراجات پر سالانہ 30ہزار کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہاں میں آپ کو بتا دوں کہ اس رقم میں وکلا اور عدالتوں کا فیس شامل نہیں ہے۔ یعنی یہ اور بھی زیادہ ہوگا ۔
اسی طرح کم و بیش 21 ہزار کیس ایسے ہیں جن کا تعلق ماحولیات سے ہے اور ان پر سماعت کی جانی ہے۔ ان کیسوں پر فیصلے سنانے میں تاخیر ہونے سے ماحولیات پر کیا اثر پڑرہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ماہرین عدالت کا کہنا ہے کہ شاہدین کو ٹرائل کورٹ میں شامل فہرست نہ کرنا، اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے حکم امتناعی جاری کرنا اور اہم گواہوں کی غیر حاضری بعض ایسے مسائل ہیں جنکی وجہ سے عدالتی کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔
ان کے مطابق عدالتوں میں ججوں کی ناکافی تعداد مسائل کو اور بھی پیچیدہ بناتی ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جہاں 2006 اور 2018 کے درمیان زیر التوا کیسوں کی تعداد میں 8.6فیصد اضافہ ہوا ، اسی مدت کے دوران ججوں کی خالی نشستوں میں 23 فیصد سے35 فیصد کا اضافہ بھی درج کیا گیا ہے۔
تازہ صورت حال میں اگر سدھار جلد نہیں کیا گیا تو معاملہ اور بھی سگین اور تشویشناک ہو جائے گا۔