سابق چیف الیکشن کمیشن ٹی این سیشن نے 20 برس قبل خبر دار کیا تھا کہ انتخابی عمل کو دولت مندوں کے ہاتھوں سے آلودہ ہونے سے بچانے اور اس کا سماج دشن عناصر کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار بننے سے روکنے کے لئے ہمیں انتخابی عمل کے نظام میں اصلاحات لانے کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن اُن کے اس مشورے کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔
سال 2019 کے عام انتخابات کا انعقاد 60 ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم خر چ کرتے ہوئے کیا گیا۔ یہ رقم امریکہ میں صدارتی انتخابات میں صرف ہونے والی رقم سے بھی پچیس فیصد زیادہ ہے۔ سینٹر فار میڈیا اسٹیڈیز (سی ایم ایس) کی ایک تحقیق کے مطابق کوئی بھی دوسرا ملک بھارت کے انتخابی اخراجات کے حجم کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور یہ اتخابی اخراجات کا مقصد 90 کروڑ لوگوں کو اپنی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ یعنی کسی دوسرے ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لئے اتنا زیادہ پیشہ خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔
سال 1998 میں اندر جیت گپتا کمیٹی نے عام انتخابات میں خطیر رقومات صرف کئے جانے کے حوالے سے کہا تھا کہ حکومت کو کچھ اُمیدواروں کے اخراجات اٹھانے چاہیں تاکہ اُن لوگوں کو بھی الیکشن لڑنے کا موقعہ فراہم ہو جو الیکشن مہم چلانے کے لئے بڑی بڑی رقومات خرچ کرنے سے قاصر ہیں۔
حالیہ تاریخ میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اُمیدواروں کو انتخابات میں فتح دلوانے کے لیے کس طرح کالا دھن کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں مجرم پیسہ اور ہوس اقتدار سے سرشار لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔جب بھی کبھی انتخابات میں پیسہ پانی کی طرح بہانے کا معاملہ زیر بحث آجاتا ہے حکومت پر بعض اُمیدواروں کے اخراجات اٹھانے کی تجویز بھی سامنے آ ہی جاتی ہے۔
لیکن مودی حکومت نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے مرکز کی جانب سے انتخابی اُمید واروں کے اخراجات اٹھانے کی تجویز کو منظور نہیں کیا ہے۔حکومت نے مزید یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے مرکز کی جانب سے انتخابی اخراجات کے علاوہ اُمیدواروں کی جانب سے مزید پیسہ خرچ کرنے پر قدغن لگانے یا اسے ممنوع قرار دینے کے حوالے سے بھی اپنی بے بسی کا اظہا ر کیا ہے۔
سابق چیف الیکشن کمیشن نسیم زیدی نے کہا تھاکہ حکومت جرائم ذدہ نظام کو ختم کرنے، نظام میں شفافیت لانے اور قوائد و ضوبط لاگو کرنے سے پہلے اگر پارٹیوں کو الیکشن فنڈ دینا شروع کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں انتشار پھیلے گا۔ ظاہر ہے کہ بھارت میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے مقصد سے اصلاحات کرنا وقت کی ا یک اہم ضرورت ہے۔
جولائی 2017 میں ارن جیٹلی نے یہ اعتراف کیا تھا کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بھارتی جمہوریت میں 'بلیک منی' اندھن کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ رائے دہندگان، عوامی نمائندگان، حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ مجموعی طور پر کرپشن کو قابو کرنے میں ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔انہوں نے کالے دھن کے استعمال کو روکنے کے لئے الیکٹرول بورڈ قائم کرنے کی تجویز بھی دی تھی ۔
جولائی 2019 میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ حکومت کو خود انتخابات کا خرچہ برداشت کرنا چاہیے۔ دہائیوں تک دولت، طاقت اور سیاسی قوت کے شکنجے میں پھنسی بھارتی جمہوریت اب نڈھال ہوچکی ہے۔اس میں اصلاحات لانے کے لئے 'دنیشن گوسوامی کمیٹی' سے لیکر 'سیکنڈ ایدمنسٹریٹو ریفارمز کمیشن' تک کی سفارشات کا جائزہ لینا اب ضروری بن گیا ہے۔
جب سال 2013 میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی کے لئے آٹھ نکات پر مشتمل دستاویز مرتب کیا گیا اور اسکے فیڈ بیک کے لئے عدلیہ کے ادارے، وکلا، قومی سطح کی تنظیموں، شہری حقوق کمیشنوں، ماہرین تعلیم، عوامی نمائندگان اور مختلف مکاتب فکر کے ماہرین کے سامنے پیش کیا گیا تو ایک محدود فیڈ بیک ہی حاصل ہوسکا۔ اس حد تک کہ اس دستاویزکے حوالے سے محض 150جوابات ( فیڈ بیک ) موصول ہوئے ۔
در اصل جب سیاسی بدعنوانی سماج کے ہر حصے میں سرائیت کرچکی ہو تو حکومتیں بھی کوئی اقدام کرنے کے بجائے لاتعلق بن کر رہتی ہیں۔ جسٹس چاگلہ نے چھ دہائیاں قبل مشورہ دیا تھا کہ رائے دہندگان کی اعتباریت کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ سیاسی جماعتیں رائے دہندگان سے ووٹ دینے کی گزارش کرنے کے بجائے اُن سے اس کا مطالبہ کرتی ہیں۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہیں اور بعض دفعہ کئی مقامات پیسہ دیکر ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
سال 2019 کے عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران اُمیدوارو ں نے 25ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ انتخابی عمل کے رائج نظام کے چلتے ایڈوانی کے ان الفاظ پر کوئی غور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ الیکشن کا مطلب آبادی کے تمام طبقوں کو مواقعہ فراہم کرنا ہے ۔
یہ آئینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اُن سیاستدانوں کی جانکاری دیں جو منتخب ہوجانے کے بعد لوٹ مار شروع کرتے ہیں۔ عوام کو جانکاری رکھنے کا حق ہے ۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ مرکزی سرکار نے خود عدالت عظمیٰ میں کہا ہے کہ شہریوں کو سیاسی جماعتوں کے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں واقفیت رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کولاپرواہی کے اس رویہ کو ترک کرنا پڑے گا اور اس موضوع پر قومی سطح پر بحث ہونی چاہیے کہ بھارتی جمہوریت کو تازہ دم کیسے بنایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ سنہ 1990 کی دہائی میں لارڈ نولان کمیٹی نے کہا تھا کہ بھارت کی سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری اور جوابدہی کا مظاہرہ کرنے کے لئے برطانیہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ قو م کی بقا کے لئے ہماری سیاسی جماعتوں کوجمہوری قواعد و ضوابط کی پاسداری کا مظاہرہ کرنا ہی ہوگا۔