ETV Bharat / bharat

'چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا بھارت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا' - بھارتی عوام چینی سامان کا بائیکاٹ

ارونیم بھویان نے اس آرٹیکل میں بتایا ہے کہ چینی مصنوعات کو بائیکاٹ کرنے سے بھارتی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ نئی دہلی اور بیجنگ پرامن سفارتی مذاکرات کے ذریعہ اختلاف کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارتی عوام کے درمیان چین کے خلاف غصہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ تقریبا 45 برس کے بعد بھارت اور چین کی سرحد پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

چینی اخبار:چینی سامان کا بائیکاٹ کرنا بھارت کے لیے مزید نقصاندہ ثابت ہوگا
چینی اخبار:چینی سامان کا بائیکاٹ کرنا بھارت کے لیے مزید نقصاندہ ثابت ہوگا
author img

By

Published : Jun 22, 2020, 4:31 PM IST

بھارت میں چین مخالف بیان بازی کے ساتھ اور گزشتہ ہفتے سرحد پر پرتشدد تصادم میں بھارت کے 20 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جارہا ہے۔

چین کے ریاستی ترجمان نے اتوار کے روز امن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عوام ایشیاء کے سب سے بڑے پلانٹ میں تیار کردہ اشیاء کو بغیر استعمال کیے مشکل سے ہی زندگی بسر کرسکتی ہے۔

ایک آرٹیکل کی سرخی میں لکھا گیا ہے کہ سرحد پر امن و سکون کے قائم کرنے سے ہی ابھرتے ہوئے یہ دونوں ایشیائی ممالک اپنے تجارتی تعلقات اور معاشی روابط کو استوار کرسکتے ہیں، جس سے دنوں طرف کے عوام کو فائدہ حاصل ہوگا۔

بیجنگ کے نقطہ نظر کو واضح کرنے والی انگریزی روزنامہ 'گلوبل ٹائمز' نے لکھا کہ بھارت کو چین کے سرحد پر پیدا ہوئی رسہ کشی کے بنا پر اپنے تجارتی تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔'

اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کو تازہ ترین سرحدی تنازعات کو مزید خراب ہونے سے روکنے اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

لداخ کے گلوان وادی میں 15 سے 16 جون کی رات میں چینی فوج کے ساتھ پرتشدد جسمانی تصادم کے دوران ایک کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔اگرچہ نئی دہلی اور بیجنگ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے میں مصروف ہیں ، لیکن بھارت میں عوامی غیظ و غضب چین کے خلاف بڑھتا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ ایک مرکزی وزیر نے چینی کھانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے کئ ویڈیو وائرل ہورہے ہیں جس میں بھارتی عوام چین میں تیار ہوئی ٹیلی ویژن سیٹ کو توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔45 برسوں کے بعد یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت اور چین سرحد پر ہلاکتیں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

سنڈے گلوبل ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں لداخ کے تصادم کو 'ایک بدقسمتی تصادم' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تصادم کو سیاستدانوں اور سازش رچنے والے نقطہ نظر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے اور بھارت میں اندرونی اور بیرونی سطح پر اس مسئلے کو قوم پرستی سے جوڑنے کے حوالے سے اور چین کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ایک ایسا طاقتور پڑوسی ممالک جس پر بھارتی میعشت کی ترقی منحصر کرتی ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کئی بھارتی میڈیا کے اینکرز اور اخبارات کے آرا کے کالم نگاروں نے بھارت کو چین کے ساتھ مقابلہ کرنے اور چین کو سبق سیکھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سرحد پر کشیدگی کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی عوام ملک کی بنیاد پرست عناصر کی وجہ سے بے وقوف نہیں بنے گی، کیونکہ بھارت کو معاشی اور جغرافیائی طور پر چین کی ضرورت ہے۔

وزارت خارجہ کی اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور بھارت اور چین کے دوطرفہ تجارتی حجم 95.5 ڈالر ہے، جس میں سے بھارت نے 18.84 بلین ڈالڑ برآمدت تھی۔بھارت ساتواں سب سے بڑا ممالک ہے جہاں چینی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں اور چین 27 واں سب سے بڑا ممالک جہاں بھارتی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔جنوری سے جولائی 2019 کے دوران ہندوستان چین تجارت 53.3 بلین ڈالر رہی۔چین میں بھارت کی برآمدات کی شرح میں 5.02 فیصد کی کمی ہوتے ہوئے 10.38 بلین تھی، وہیں بھارت میں چین کی برآمدات کی شراح 2.21 کی کمی کے ساتھ 42.92 بلین تھی۔

گلوبل ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ چین بھارت کو مواقع فراہم کرتا ہے۔بھارت کے 30 یونکارن اسٹارٹ انٹرپرائزس میں سے 18 کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری ہے اور بھارتی عوام جو روازنہ کی بنیاد پر چیزیں استعمال کرتی ہیں چاہے وہ ٹی وی ہو یا مائیکرو ویو اون سے لے کر اے سی اور اعلی جدید ٹیکنالوجی والے موبائل فون یا لیپ ٹاپ، یہ ساری چیزیں چین تیار کرتا ہے۔سستی قیمتوں اور اچھے معیار والی ان چینی مصنوعات کی جگہ لینا مشکل ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ بھارت ایشیا میں جیو پالیٹیکل تناؤ میں مزید اضافہ نہ کریں۔کیونکہ نئی دہلی کے پاس چین کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے 100 وجوہات ہے کیونکہ وہ دوسرے ممالک سے اپنے علاقے کو دور نہیں رکھ سکتا۔

سنہ 2017 میں بھارت چین سرحد کا تازہ ترین واقعہ تب پیش آیا تھا جب ڈوکلام میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان 73 روز تک کشیدگی رہی۔اسی برس وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ نے کزاقستان میں منعقد ہوئی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو تنازعات کا سبب نہیں بننے دیا جانا چاہئے۔

واضح رہے کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے لئے شی نے سنہ 2018 میں باضابطہ مذاکرات کے لیے ووہان شہر میں مودی سے ملاقات کی وہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال چنئی کے قریب مملا پورم میں اسی طرح کے سربراہی اجلاس میں چینی صدر کی میزبانی کی تھی۔

لداخ میں پیدا ہوئے کشیدگی کے بعد سے دونوں سربراہوں کے تعلقات کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کیے جارہیے ہیں۔

بھارت میں چین مخالف بیان بازی کے ساتھ اور گزشتہ ہفتے سرحد پر پرتشدد تصادم میں بھارت کے 20 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جارہا ہے۔

چین کے ریاستی ترجمان نے اتوار کے روز امن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عوام ایشیاء کے سب سے بڑے پلانٹ میں تیار کردہ اشیاء کو بغیر استعمال کیے مشکل سے ہی زندگی بسر کرسکتی ہے۔

ایک آرٹیکل کی سرخی میں لکھا گیا ہے کہ سرحد پر امن و سکون کے قائم کرنے سے ہی ابھرتے ہوئے یہ دونوں ایشیائی ممالک اپنے تجارتی تعلقات اور معاشی روابط کو استوار کرسکتے ہیں، جس سے دنوں طرف کے عوام کو فائدہ حاصل ہوگا۔

بیجنگ کے نقطہ نظر کو واضح کرنے والی انگریزی روزنامہ 'گلوبل ٹائمز' نے لکھا کہ بھارت کو چین کے سرحد پر پیدا ہوئی رسہ کشی کے بنا پر اپنے تجارتی تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔'

اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کو تازہ ترین سرحدی تنازعات کو مزید خراب ہونے سے روکنے اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

لداخ کے گلوان وادی میں 15 سے 16 جون کی رات میں چینی فوج کے ساتھ پرتشدد جسمانی تصادم کے دوران ایک کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔اگرچہ نئی دہلی اور بیجنگ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے میں مصروف ہیں ، لیکن بھارت میں عوامی غیظ و غضب چین کے خلاف بڑھتا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ ایک مرکزی وزیر نے چینی کھانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے کئ ویڈیو وائرل ہورہے ہیں جس میں بھارتی عوام چین میں تیار ہوئی ٹیلی ویژن سیٹ کو توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔45 برسوں کے بعد یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت اور چین سرحد پر ہلاکتیں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

سنڈے گلوبل ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں لداخ کے تصادم کو 'ایک بدقسمتی تصادم' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تصادم کو سیاستدانوں اور سازش رچنے والے نقطہ نظر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے اور بھارت میں اندرونی اور بیرونی سطح پر اس مسئلے کو قوم پرستی سے جوڑنے کے حوالے سے اور چین کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ایک ایسا طاقتور پڑوسی ممالک جس پر بھارتی میعشت کی ترقی منحصر کرتی ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کئی بھارتی میڈیا کے اینکرز اور اخبارات کے آرا کے کالم نگاروں نے بھارت کو چین کے ساتھ مقابلہ کرنے اور چین کو سبق سیکھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سرحد پر کشیدگی کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی عوام ملک کی بنیاد پرست عناصر کی وجہ سے بے وقوف نہیں بنے گی، کیونکہ بھارت کو معاشی اور جغرافیائی طور پر چین کی ضرورت ہے۔

وزارت خارجہ کی اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور بھارت اور چین کے دوطرفہ تجارتی حجم 95.5 ڈالر ہے، جس میں سے بھارت نے 18.84 بلین ڈالڑ برآمدت تھی۔بھارت ساتواں سب سے بڑا ممالک ہے جہاں چینی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں اور چین 27 واں سب سے بڑا ممالک جہاں بھارتی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔جنوری سے جولائی 2019 کے دوران ہندوستان چین تجارت 53.3 بلین ڈالر رہی۔چین میں بھارت کی برآمدات کی شرح میں 5.02 فیصد کی کمی ہوتے ہوئے 10.38 بلین تھی، وہیں بھارت میں چین کی برآمدات کی شراح 2.21 کی کمی کے ساتھ 42.92 بلین تھی۔

گلوبل ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ چین بھارت کو مواقع فراہم کرتا ہے۔بھارت کے 30 یونکارن اسٹارٹ انٹرپرائزس میں سے 18 کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری ہے اور بھارتی عوام جو روازنہ کی بنیاد پر چیزیں استعمال کرتی ہیں چاہے وہ ٹی وی ہو یا مائیکرو ویو اون سے لے کر اے سی اور اعلی جدید ٹیکنالوجی والے موبائل فون یا لیپ ٹاپ، یہ ساری چیزیں چین تیار کرتا ہے۔سستی قیمتوں اور اچھے معیار والی ان چینی مصنوعات کی جگہ لینا مشکل ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ بھارت ایشیا میں جیو پالیٹیکل تناؤ میں مزید اضافہ نہ کریں۔کیونکہ نئی دہلی کے پاس چین کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے 100 وجوہات ہے کیونکہ وہ دوسرے ممالک سے اپنے علاقے کو دور نہیں رکھ سکتا۔

سنہ 2017 میں بھارت چین سرحد کا تازہ ترین واقعہ تب پیش آیا تھا جب ڈوکلام میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان 73 روز تک کشیدگی رہی۔اسی برس وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ نے کزاقستان میں منعقد ہوئی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران ایک دوسرے سے ملاقات کی اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو تنازعات کا سبب نہیں بننے دیا جانا چاہئے۔

واضح رہے کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے لئے شی نے سنہ 2018 میں باضابطہ مذاکرات کے لیے ووہان شہر میں مودی سے ملاقات کی وہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال چنئی کے قریب مملا پورم میں اسی طرح کے سربراہی اجلاس میں چینی صدر کی میزبانی کی تھی۔

لداخ میں پیدا ہوئے کشیدگی کے بعد سے دونوں سربراہوں کے تعلقات کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کیے جارہیے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.