تارا چند بڑجاتیہ نے کولکتہ کے ودیاساگر کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ پڑھ لکھ کر بیرسٹر بنیں لیکن کنبہ کی معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم درمیان میں ہی چھوڑنی پڑی۔
سنہ 1933 میں نوکری کی تلاش میں ممبئی آکر انہوں نے موتی محل تھیٹرز پرائیویٹ لمیٹیڈ نامی فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی میں شمولیت اختیار کرلی جہاں بطور معاوضہ انہیں 85 روپے ملتے تھے۔
سال 1939 میں ان کے کام سے خوش ہوکر ڈسٹری بیوشن کمپنی نے انہیں جنرل منیجر کے عہدے پر فائز کرکے مدراس بھیج دیا۔ مدراس پہنچنے کے بعد تارا چند اور زیادہ محنت کے ساتھ کام کرنے لگے۔ ان کے کام کو دیکھ موتی محل تھیٹرز کے مالک نے انہیں خود کی کمپنی شروع کرنے کے لیے کہا اور اسی کے ساتھ ان کی مالی مدد کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ تاراچند کو یہ بات موزوں لگی اور انہوں نے خود کی ڈسٹری بیوشن کمپنی کھولنے کا ارادہ کرلیا۔
15 اگست 1947 کو جب ملک آزاد ہوا تو اسی دن انہوں نے ’راج شری‘ نام سے اپنی کمپنی کا آغاز کیا اور انہوں نے جو پہلی فلم خریدی وہ تھی ’چندر لیکھا‘۔ جیمنی اسٹوڈیو کے بینر تلے بنی یہ فلم سپرہٹ ہوئی جس سے انہیں کافی فائدہ پہنچا اس کے بعد وہ جیمنی کے مستقل ڈسٹری بیوٹر بن گئے۔
بعد ازاں تاراچند نے جنوبی ہند کے کئی پروڈیوسروں کو ہندی فلم بنانے کے لیے راغب کیا ۔ اے بی ایم انجلی۔ وینس، پکشی راج اور پرساد پروڈکشن جیسے فلم ساز ادارے ان کے ہی تعاون سے ہندی فلم پروڈکشن کی جانب گامزن ہوئے اور بعد میں وہ بہت کامیاب بھی ہوئے۔
فلم ڈسٹری بیوشن کے ساتھ ساتھ تاراچند کا یہ خواب بھی تھا کہ وہ چھوٹے بجٹ کی خاندانی فلمیں بنائیں اور 1962 میں ریلیز فلم ’آرتی‘ کے ذریعہ انہوں نے فلم سازی کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا۔
فلم آرتی کی کامیابی کے بعد وہ بطور پروڈیوسر فلم انڈسٹری میں کامیاب ہوگئے۔ اس فلم سے متعلق دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اداکار سنجیو کمار نے اس فلم کے لیے اسکرین ٹیسٹ دیا تھا جس میں وہ پاس نہیں ہوسکے تھے۔
تارا چند کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ آتی تھی کہ نئے فنکاروں کو فلم انڈسٹری میں قائم ہونے کے مناسب موقع نہیں مل پاتے۔ انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنی فلموں کے ذریعے نئے فنکاروں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں گے۔
سال 1964 میں اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے فلم ’دوستی‘ بنائی جس میں انہوں نے اداکار سنجے خان کو پردہ سمیں پر پیش کیا۔ دوستی کے رشتے پر مبنی اس فلم نے نہ صرف کامیابی کے نئے طول و عرض قائم کیے بلکہ اداکار سنجے خان کے کیریئر کو بھی ایک نئی سمت دی۔ اس فلم کا یہ گانا ’چاهوں گا تجھے میں سانجھ سویرے‘‘ آج بھی سامعین کے درمیان کافی مقبول ہے۔
سنجے خان کے علاوہ دیگر کئی فنکار اور فنکاراؤں کے کیرئیر کو سنوارنے میں بھی تاراچند کا اہم تعاون رہا ہے جن میں سچن ۔ ساریکا (گیت گاتا چل)، امول پالیکر۔ زرینہ وہاب (چت چور)، رنجیتا (انکھیوں کے جھروکے سے)، راکھی (جیون مرتیو)، ارون گوئل (ساون کو آنے دو)، رامیشوری (دلہن وہی جو پیا من بھائے) اور سلمان خان ۔ بھاگیہ شری (میں نے پیار کیا) جیسے ستارے شامل ہیں۔
تارا چند کو دو مرتبہ فلم فیئر کے بہترین فلمساز کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اپنی بنائی فلموں سے تقریباً چار دہائیوں تک شائقین کا بھرپور مزاح کرنے والے عظیم فلمساز تاراچند بڑجاتیہ 21 ستمبر 1992 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔