بھارت کے قدیم ترین شہر بنارس کی بڑی آبادی کا انحصار دریائے گنگا پر ہے۔ راج گھاٹ پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو مہیش اور وشال کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔
ان لوگوں کو ٹرین سے کہیں جانا نہیں ہوتا ہے بلکہ ٹرین میں سوار مسافر گنگا ندی میں سکے پھینکتے ہیں جسے مہیش اور وشال جیسے سیکڑوں غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔
غوطہ خوروں کے لیے ایک دن میں 200 سے 500 روپے تلاش کرلینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اسی پیسے سے ان کے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وشال بتاتے ہیں کی پشت در پشت وہ یہی کام کرتے چلے آئے ہیں پہلے ان کے دادا پھر والد اب ان کے چچا سمیت گھر کے کئی فرد اس کام سے وابستہ ہیں۔
وشال کہتے ہیں کہ گنگا میں سکّے تلاش کرنے کے علاوہ دریا میں جب بھی کوئی غرق ہوجاتا ہے تو اس کو بچانے میں یا لاش تلاش کرنے کے لئے پولیس اہلکار لے جاتے ہیں لیکن نام این ڈی آر ایف کا ہوتا ہے۔
مہیش بتاتے ہیں کہ ان کے دو بچے ہیں ان کو روزگار نہیں مل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ مجبوری میں وہ غوطہ لگاکر سکے تلاش کرتے ہیں اور خود کو روزانہ خطرے میں ڈال کر روزی روٹی کا سامان کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کئی غوطہ خوروں کی جان بھی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود گھر چلانے کے لئے لیے بطور مجبوری ہے کام کرنا پڑ رہا ہے۔