ETV Bharat / bharat

علاج کے دوران لڑکے کو لڑکی میں بدلنے کا الزام

بریلی کے پرائویٹ ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرانے والے بچہ کے والدین نے اسپتال انتظامیہ پر سنسنی خیز الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اسپتال میں لڑکے کو داخل کرایا تھا جہاں انہیں لڑکی واپس دی جارہی ہے۔

لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی
لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی
author img

By

Published : Dec 1, 2019, 8:45 AM IST

ریاست اترپردیش کے بریلی کے ایک پرائویٹ ہسپتال میں رامپور سے آئے میاں بیوی نے یہ کہہ کر ہنگامہ شروع کر دیا کہ اُنہوں نے ہسپتال میں اپنے بیٹے کو بغرض علاج داخل کیا تھا اور ہسپتال انتظامیہ نے اُن کے بیٹے کو بدل کر بیٹی دے دیا ہے۔

لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی
لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی

والدین نے لڑکی کو ہسپتال میں ہی چھوڑکر چلے گئے۔ واقعے کے بعد نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کو ڈی این اے کرانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اگر لڑکی اور والدین کا ڈی این اے مل جاتا ہے تو والدین سزا کے مستحق ہوں گے اور اگر ڈی این اے نہیں ملتا ہے تو پھر اسپتال انتظامیہ پر کارروائی کی جائےگی۔

بریلی میں تقریباً چھ مہینے قبل 28 مئی 2019 کو پرائویٹ گرونانک ہسپتال میں رامپور مِلک کے گاؤں راج ڈنڈیا کے ہوری لعل نے ایک بچّے کو داخل کیا تھا۔ اُس وقت بچّے کی عمر 15 دن تھی اور وزن محض 850 گرام تھا۔

اطلاعات کے مطابق جب 15 دن بعد بچّہ صحت یاب ہو گیا تو گرونانک ہسپتال انتظامیہ نے ہسپتال میں علاج کے خرچ کی باقی رقم طلب کی۔ بچّہ کے والدین نے اسے ادا نہیں کیا ، ساتھ ہی یہ کہہ کر ہنگامہ کر دیا کہ اُنہوں نے 15 دن قبل بیٹا داخل کیا تھا اور ہسپتال سے روانگی کے وقت لڑکی سپرد کر رہے ہیں۔

لہذا اُنہوں نے لڑکی کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً ہسپتال انتظامیہ کو لڑکی اپنے ہسپتال میں ہی رکھنی پڑی۔

تقریباً ایک مہینے علاج کرنے کے بعد لڑکی کو شاہجہاں پور کے زنانہ ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ وہاں علاج مکمل ہونے کے بعد لڑکی کو دوبارہ بریلی لایا گیا اور اب لڑکی کی پرورش ”بورن بیبی فولڈ سنٹر“ میں کی جا رہی ہے۔

اب یہ معاملہ دوبارہ سرخیوں میں ہے۔ اب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کا ڈی این اے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں ڈی این اے کے عمل پر کام کرنا شروع کیا جائےگا۔

مزید پڑھیں : یونیسیف کے اشتراک سے مہاراشٹر میں 'کنگارو مدر کیئر یونٹ'

چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی کے مجسٹریٹ کے مطابق ڈی این اے کے عمل کے بعد لڑکی کے خون کا بھی سیمپل لیا جائےگا۔ اگر والدین اور لڑکی کے خون میں ڈی این اے میچ ہو جاتا ہے تو یہ طے ہے کہ لڑکی کو ہسپتال بورن بیبی فولڈ سنٹر میں یتیموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے والدین کے خلاف تھانہ میں مقدمہ درج کیا جائےگا۔

گرونانک ہسپتال بھی لڑکی کے علاج میں ہونے والے خرچ کو وصولی کرےگا۔ اس کے علادہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن بھی کاروائی کرائےگا۔

ریاست اترپردیش کے بریلی کے ایک پرائویٹ ہسپتال میں رامپور سے آئے میاں بیوی نے یہ کہہ کر ہنگامہ شروع کر دیا کہ اُنہوں نے ہسپتال میں اپنے بیٹے کو بغرض علاج داخل کیا تھا اور ہسپتال انتظامیہ نے اُن کے بیٹے کو بدل کر بیٹی دے دیا ہے۔

لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی
لڑکے کو بغرض علاج ہسپتال میں شریک کرانے کے بعد لڑکی کی واپسی

والدین نے لڑکی کو ہسپتال میں ہی چھوڑکر چلے گئے۔ واقعے کے بعد نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کو ڈی این اے کرانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اگر لڑکی اور والدین کا ڈی این اے مل جاتا ہے تو والدین سزا کے مستحق ہوں گے اور اگر ڈی این اے نہیں ملتا ہے تو پھر اسپتال انتظامیہ پر کارروائی کی جائےگی۔

بریلی میں تقریباً چھ مہینے قبل 28 مئی 2019 کو پرائویٹ گرونانک ہسپتال میں رامپور مِلک کے گاؤں راج ڈنڈیا کے ہوری لعل نے ایک بچّے کو داخل کیا تھا۔ اُس وقت بچّے کی عمر 15 دن تھی اور وزن محض 850 گرام تھا۔

اطلاعات کے مطابق جب 15 دن بعد بچّہ صحت یاب ہو گیا تو گرونانک ہسپتال انتظامیہ نے ہسپتال میں علاج کے خرچ کی باقی رقم طلب کی۔ بچّہ کے والدین نے اسے ادا نہیں کیا ، ساتھ ہی یہ کہہ کر ہنگامہ کر دیا کہ اُنہوں نے 15 دن قبل بیٹا داخل کیا تھا اور ہسپتال سے روانگی کے وقت لڑکی سپرد کر رہے ہیں۔

لہذا اُنہوں نے لڑکی کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً ہسپتال انتظامیہ کو لڑکی اپنے ہسپتال میں ہی رکھنی پڑی۔

تقریباً ایک مہینے علاج کرنے کے بعد لڑکی کو شاہجہاں پور کے زنانہ ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ وہاں علاج مکمل ہونے کے بعد لڑکی کو دوبارہ بریلی لایا گیا اور اب لڑکی کی پرورش ”بورن بیبی فولڈ سنٹر“ میں کی جا رہی ہے۔

اب یہ معاملہ دوبارہ سرخیوں میں ہے۔ اب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کا ڈی این اے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں ڈی این اے کے عمل پر کام کرنا شروع کیا جائےگا۔

مزید پڑھیں : یونیسیف کے اشتراک سے مہاراشٹر میں 'کنگارو مدر کیئر یونٹ'

چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی کے مجسٹریٹ کے مطابق ڈی این اے کے عمل کے بعد لڑکی کے خون کا بھی سیمپل لیا جائےگا۔ اگر والدین اور لڑکی کے خون میں ڈی این اے میچ ہو جاتا ہے تو یہ طے ہے کہ لڑکی کو ہسپتال بورن بیبی فولڈ سنٹر میں یتیموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے والدین کے خلاف تھانہ میں مقدمہ درج کیا جائےگا۔

گرونانک ہسپتال بھی لڑکی کے علاج میں ہونے والے خرچ کو وصولی کرےگا۔ اس کے علادہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن بھی کاروائی کرائےگا۔

Intro:up_bar_1_dna of abandoned baby_avb_7204399

بریلی کے ایک پرائویٹ ہسپتال میں رامپور سے آئے میاں بیوی نے یہ کہکر ہنگامہ کر دیا تھا کہ اُنہوں نے ہسپتال میں بیٹا داخل کیا تھا اور ہسپتال انتظامیہ نے اُنکے بیٹے کو بدلکر بیٹی دے دی ہے۔ لہزا اُنہوں اُس بچّے کو ترک کر دیا اور بچّہ ہسپتال میں چھوڑکر چلے گئے۔ اب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کو ڈی این اے کرانے کا فرمان جاری کیا ہے۔ اگر بچّی اور والدین کا ڈی این اے مل جاتا ہے تو والدین سزا کے مستحق ہونگے اور اگر ڈی این اے نہیں ملتا ہے تو پھر کوئ دیگر کارروائ کی جائےگی۔
Body:
بریلی میں تقریباً چھ مہینے قبل 28 مئ کو شہر کے پرائویٹ گرونانک ہسپتال میں رامپور مِلک کے گاؤں راج ڈنڈیا کے ہوری لعل نے ایک بچّے کو داخل کیا تھا۔ اُس وقت بچّے کی عمر 15 دن تھی اور وزن محض 850 گرام تھا۔ جب 15 دن بعد بچّہ صحتیاب ہو گیا تو گرونانک ہسپتال انتظامیہ نے ہسپتال میں علاج کے خرچ کی باقی رقم طلب کی۔ بچّہ کے والدین نے کوئ ادائگی تو نہیں کی لیکن اسکے بعد یہ کہکر ہنگامہ کر دیا کہ اُنہوں نے 15 دن قبل بیٹا داخل کیا تھا اور ہسپتال سے روانگی کے وقت بیٹی سپرد کر رہے ہیں۔ لہزا اُنہوں نے بچّی کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً گرونانک ہسپتال کو بچّی اپنے ہسپتال میں ہی اپنی زیر نگرانی میں رکھنی پڑی۔ تقریباً ایک مہینے علاج کرنے کے بعد بچّی کو شاہجہاں پور میں کے زنانہ ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ وہاں علاج مکمل ہونے کے بعد بیٹی کو دوبارہ بریلی لایا گیا اور اب بچّی کی پرورش ”بورن بیبی فولڈ سنٹر“ میں کی جا رہی ہے۔ اب یہ معاملہ دوبارہ سرخیوں میں ہے۔ اب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے والدین کا ڈی این اے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں ڈی این اے کے عمل پر کام کرنا شروع کیا جائےگا۔

چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی کے مجسٹریٹ کے مطابق ڈی این اے کے عمل کے بعد بچّی کے خون کا بھی سیمپل لیا جائےگا۔ اگر والدین اور بچّی کے خون مین ڈی این اے میچ ہو جاتا ہے تو یہ طے ہے کہ بچّی کو ہسپتال بورن بیبی فولڈ سنٹر میں یتیموں کی طرح زیندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے والدین کے خلاف تھانہ میں مقدمہ درج کیا جائےگا۔ گرونانک ہسپتال بھی بچّی کے علاج میں ہونے والے خرچ کو وصولی کرےگا۔ اسکے علادہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن بھی کاروائ کرائےگا۔ جبکہ سماج میں اسکا انکشاف ہونے کے بعد رشتہ داروں میں بھی لوگ حقارت آمیز نظروں سے دیکھینگے۔ لیکن اگر والدین اور بچّی کا ڈی این اے میچ نہیں کرتا ہے تو اس بچّی کو کسی کے سپرد کرنے کی کارروائ عمل میں لائ جائےگی۔ مثلاً بچّی کے بابت 60 دن کا اڈاپشن ٹائم ہوتا ہے۔ اسکے بعد بچّی کو گود لینے والے لوگوں سے درخواست لی جائےگی اور پھر درخواست دینے والے لوگوں کی مالی حالت، معاشی حالت اور تعلیمی میعار کی جانچ ہوگی۔ بچّہ گود لینے والے لوگوں کی ہر پہلو سے جانچ کی جاتی ہے۔ جس سے یہ شک یقین میں بدل جائے کہ بچّی کو گود لینے والے والدین اُسے اپنی اولاد کی طرح پرورش کرینگے۔ اگر جانچ میں کسی طرح کا شک باقی رہتا ہے تو ایسے والدین کو بچّہ نہیں دیا جاتا ہے۔ فی الحال بچّی کا ڈی این اے ہونے کے بعد ہی یہ طے ہو پائےگا کہ یہ بچّی کسکی گود میں کھیلیگی اور اسکے والدین اِسے کیا نام دینگے۔

بائٹ ۔۔01۔۔ ڈاکٹر ڈی این شرما، مجسٹریٹ، چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی، بریلی
Conclusion:
مستفیض علی خان،
ای ٹی وی، بھارت اردو،
بریلی
+919897531980
+919319447700
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.