اورنگ آباد کے اسکولی طلبا نے اپنے ہاتھوں سے اردو میگزین تیار کرکے وہ کیسے دیکھئے .
تتلی کے رنگ، مہکتی کلیاں، نصیحت کے موتی اوراطفال نور یہ سب ان اردوجریدوں کے نام ہیں جو بچوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں ۔
امان اللہ موتی والا ہائی اسکول کی سلور جوبلی تقریبات کا اس مناسبت سے طلبا وطالبات میں صحافتی رجحان کو فروغ دینے اور ان میں صحافتی قدروں کو پروان چڑھانے کے مقصد سے ’’دستی میگزین سازی‘‘ کا مقابلہ رکھا گیا۔
اس مقابلے میں مختلف جماعتوں کے پچپن سے زائد طلبا وطالبات نے حصہ لیا اور دو ہفتوں کی کوشش سے دیدہ زیب اور پرکشش مگیزین تیار کیے ۔
ہر جریدہ اپنی کہانی خود بیان کررہا تھا کہ اس پر کس قدر محنت کی گئی اور کیسے اسے نکھارا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر جریدے میں جو مواد شامل کیا گیا وہ کسی معیاری جریدے سے کم نہیں تھا ۔
خیال رہے کہ اسمارٹ فون کی اس دنیا میں بچوں کو سوشل میڈیاسے دور رکھنا محال ہے ایسے میں دم توڑتی اردو صحافت کی طرف نئی نسل کو راغب کرنا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن استاد اگر چاہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں اوراس مقولے کو عملی طور پرصحیح ثابت کیا ہے۔
اسکول کی ٹیچر فریسہ جبین نے، ان کی کاویشوں کا نتیجہ پچاس سے زائد مثالی جریدوں کی شکل میں سامنے آیا،مقابلے کے مبصرین کا کہنا ہیکہ ان بچوں میں ہم مستقبل کے قلم کاروں کو بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔
اردو اسکولوں میں معیار تعلیم کی گراوٹ کا ہر کوئی رونا روتا ہے لیکن کچھ تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جو یہ بخوبی جانتے ہیں کہ طلبا کی صلاحیتوں کو کیسے نکھارا جاسکتا ہے۔
دستی میگزین سازی مقابلہ اس کی بہترین مثال کہا جاسکتا ہے ، جو نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ بچوں کی ہمہ جہت صلاحیتوں کو نکھارنے کا پیغام بھی اس میں پوشیدہ ہے ۔