دہلی میں ایک ہفتے بعدلوگ اپنے حق رائے دیہی کا استعمال کریں گے ۔ عام رائے دہندگان کے رجحان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکمران جماعت یعنی عام آدمی پارٹی آسانی کے ساتھ یہ انتخابا دوبارہ جیتے گی ۔بی جے پی مشکل سے خود کو عام آدمی پارٹی کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔
جبکہ کانگریس جو دہلی میں پندرہ سال (سال 1998سے سال 2013ء تک ) حکومت کرچکی ہے ، شکست کے اس دھچکے سے ابھی تک باہر نہیں آپائی ہے، جو اسے 2015ء کے اسمبلی الیکشن میں ہوئی تھی ۔اس انتخاب میں کانگریس کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی اور اسے حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح انتہائی کم رہی تھی۔
گرائونڈ رپورٹس اور رائے عامہ کے بعض حالیہ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ ان انتخابات میں صورتحال عام آدمی پارٹی کے حق میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سال 2019کے لوک سبھا انتخابات میں ناقص کردگی کا مظاہرہ کرنے والی اس پارٹی نے اب خود کو سنبھال لیا ہے۔
جبکہ بی جے پی جس نے سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں57 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دہلی کی تمام سات نشستیں جیت لیں تھیں، اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی سب سے قریبی حریف کی شکل میں کافی فاصلے پر کھڑی ہے۔
لگتا ہے کہ رائے دہندگان کی اچھی خاصی تعداد نے عام آدمی کے حق میں اپنا ووٹ دینے کا من بنا لیا ہے۔حالانکہ ان ہی رائے دہندگان نے حال ہی میں یعنی سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بڑی تعداد میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
در اصل رائے دہندگان قومی حکومت اور دہلی کی مقامی حکومت کو دو مختلف نظریوں سے دیکھتے ہیں۔عام آدمی پارٹی کا اپنی حریف جماعت یعنی بی جے پی سے دو قدم آگے ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ لوگ عام آدمی پارٹی کی کے کام کو سراہتے ہیں ۔ خاص طور سے اس حکومت کے وہ کام ، جو اس نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کئے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر یعنی وزیر اعلیٰ اروند کیجر وال کو کافی عوامی مقبولیت حاصل ہے۔اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کو اس لئے بھی بی جے پی اور کانگریس کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن ہے کیونکہ ان پارٹیوں کے پاس وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے کوئی ایسا مناسب اُمیدوار نہیں ہے ، جسے کیجروال جیسی مقبولیت حاصل ہو۔
اگرچہ عام آدمی پارٹی نے سال 2014ء اور سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب سے یہ پارٹی معرض وجود آگئی ہے ،یہ دلی اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کی ایک من پسند جماعت رہی ہے۔
حالانکہ عام آدمی پارٹی نے سال 2013ء کے دہلی اسمبلی انتخابات ، جو اس کا پہلا انتخاب تھا ، اس میں انہوں نے کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
اس پارٹی نے 29.5 فیصد ووٹ شرح حاصل کرتے ہوئے محض 28سیٹیں جیت لی تھیں۔لیکن تقریباً پانچ سال بعد یعنی سال 2015ء کے اسمبلی انتخابات میں اسی پارٹی نے54.3 فیصد ووٹوں کے بل پر 70نشستوں پر مشتمل اسمبلی کی 67سیٹیں حاصل کرکے اپنی بھاری جیت درج کرالی ۔
بی جے پی دہلی کے انتخابات قومی نوعیت کی اپنی کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے لڑے گی ۔ ان میں شہریت ترمیمی ایکٹ پاس کرنا، دفعہ 370ختم کرنا ، رام مندرکی تعمیر کی حمایت اور تین طلاق جیسے معاملے شامل ہوں گے ۔
لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں کن باتوں کی بنا پر اپنے اُمید وار منتخب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دراصل دہلی اسمبلی انتخابات میں مقامی مسائل کو دیکھ کر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔
ان انتخابات کی مہم کے دوران عام آدمی پارٹی کی بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اپنی حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ کارگردگی کو سامنے لائیں ۔جھارکھنڈاور ہریانہ کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی لوگوں نے قومی نوعیت کے معاملے کے بجائے مقامی مسائل کو دیکھ کر اپنے اُمیدواروں کو ووٹ دیا۔
مجھے لگتا ہے کہ دہلی کے رائے دہندگان بھی قومی معاملے کے بجائے دہلی کی ریاستی حکمرانی سے متعلق مسائل کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دیں گے ۔
ووٹروں کا ریاستی مسائل کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دینے کے رجحان کے نتیجے میں عام آدمی پارٹی اپنے حریفوں سے آگے رہے گی ۔کیوںکہ دہلی کے لوگ ویسے بھی کیجروال حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔
جائزوں کے اعداد و شمار سے بھی یہی عندیہ ملتا ہے کہ دہلی کے لوگ دہلی حکومت کی مختلف اسکیموں کو ذہن میں رکھ کر انتخاب میں حصہ لیں گے ۔
مختلف ریاستوں میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ رائے دہندگان نے قومی نوعیت کے معاملات پر نہیں بلکہ ان ریاستوں کے مقامی مسائل کو ذہن میں رکھ کر اپنے من پسند اُمیدواروں کا منتخب کیا ہے۔
سی ایس ڈی ایس کے سروے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ دہلی کے ووٹرس مرکز میں مودی کی جانب سے کیے گئے کام کو دیکھ کر نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سروے کے دوران 55 فیصد لوگوں نے بتایا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کی دہلی حکومت کے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا ووٹ دیں گے۔ اس سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لوگ عام آدمی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی سے کافی مطمئن ہیں۔اگر چہ مرکزی حکومت کی کارکردگی کو بھی سراہا جاتا ہے۔
لیکن ہریانہ اور جھارکھنڈ کی طرح دہلی میں بھی اس وجہ سے بی جے پی کو ووٹ نہیں ملیں گے کہ قومی معاملات میں اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے ۔
اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ ، جو مرکزی سرکار کی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں، وہ بھی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اپنی پہلی پسند رکھتے ہیں۔
سروے کے دوران ہر پانچ میں سے دو سے زائد افراد نے بتایا ہے کہ وہ مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی سے مکمل طور سےمطمئن ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا رجحان ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی بہت مقبول جماعت ہے ۔ اسے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 58فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ لیکن اسکے باوجود اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔
اسی طرح جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کا ووٹ شرح 22 فیصد کم ہوگیا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔اسلئے لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو دلی اسمبلی انتخابات میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ووٹروں کیلئے پارٹیوں سے زیادہ اُمیدواروں کے چہرے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اس معاملے میں بھی فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ بی جے پی کے پاس وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے ایسا کوئی اُمید وار نہیں ہے ، جسے مقبول عام اروند کیجروال کے مقابلے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
حالانکہ دہلی میں بی جے پی کے کئی لیڈران ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مقبولیت کے لحاظ سے اروند کیجر وال کے قریب بھی نہیں ہے۔اسی لئے بی جے پی دلی اسمبلی انتخابات بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کے بل بوتے پر لڑے گی ۔
نریندر مودی دہلی کے رائے دہندگان میں بہت مقبول ہیں لیکن دہلی گورننس سٹیڈی نے عندیہ دیا ہے کہ کیجر وال کی مقبولیت مودی کے مقابلے میں دسفیصد زیادہ ہے۔ اس لئے اگر مقابلہ کیجر وال اور مودی کے درمیان ہوا تو اول الذکر زیادہ مضبوط ثابت ہونگے ۔
اب جبکہ دہلی اسمبلی کے انتخابات 8فروری کو ہورہے ہیں اور اس میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ،آنے والے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوجائے گی ۔تاہم یہ طے ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی نے رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کے لئے اپنا بیانیہ صرف مقامی مسائل سے متعلق ہی رکھا تو ان انتخابات میں اس کی دوسری بار جیت یقینی ہے۔
عام آدمی پارٹی کی فتح یقینی - دہلی اسمبلی انتخابات 2020
سینٹر فار دا اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائسٹیس (سی ایس ڈی ایس) کے ڈائریکٹر سنجے کمار کے مطابق رواں برس ہونے والے دہلی انتخابات میں اگر اروند کیجریوال کی زیر قیادت عام آدمی پارٹی گزشتہ پانچ برس میں کی گئی کارگردگی پر انتخاب لڑتی ہے تو وہ دوبارہ اقتدار میں آئے گی۔آئیے جانتے ہیں کہ دہلی انتخابات کے تعلق سے ان کی کیا رائے ہے۔
دہلی میں ایک ہفتے بعدلوگ اپنے حق رائے دیہی کا استعمال کریں گے ۔ عام رائے دہندگان کے رجحان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکمران جماعت یعنی عام آدمی پارٹی آسانی کے ساتھ یہ انتخابا دوبارہ جیتے گی ۔بی جے پی مشکل سے خود کو عام آدمی پارٹی کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔
جبکہ کانگریس جو دہلی میں پندرہ سال (سال 1998سے سال 2013ء تک ) حکومت کرچکی ہے ، شکست کے اس دھچکے سے ابھی تک باہر نہیں آپائی ہے، جو اسے 2015ء کے اسمبلی الیکشن میں ہوئی تھی ۔اس انتخاب میں کانگریس کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی اور اسے حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح انتہائی کم رہی تھی۔
گرائونڈ رپورٹس اور رائے عامہ کے بعض حالیہ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ ان انتخابات میں صورتحال عام آدمی پارٹی کے حق میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سال 2019کے لوک سبھا انتخابات میں ناقص کردگی کا مظاہرہ کرنے والی اس پارٹی نے اب خود کو سنبھال لیا ہے۔
جبکہ بی جے پی جس نے سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں57 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دہلی کی تمام سات نشستیں جیت لیں تھیں، اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی سب سے قریبی حریف کی شکل میں کافی فاصلے پر کھڑی ہے۔
لگتا ہے کہ رائے دہندگان کی اچھی خاصی تعداد نے عام آدمی کے حق میں اپنا ووٹ دینے کا من بنا لیا ہے۔حالانکہ ان ہی رائے دہندگان نے حال ہی میں یعنی سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بڑی تعداد میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
در اصل رائے دہندگان قومی حکومت اور دہلی کی مقامی حکومت کو دو مختلف نظریوں سے دیکھتے ہیں۔عام آدمی پارٹی کا اپنی حریف جماعت یعنی بی جے پی سے دو قدم آگے ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ لوگ عام آدمی پارٹی کی کے کام کو سراہتے ہیں ۔ خاص طور سے اس حکومت کے وہ کام ، جو اس نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کئے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر یعنی وزیر اعلیٰ اروند کیجر وال کو کافی عوامی مقبولیت حاصل ہے۔اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کو اس لئے بھی بی جے پی اور کانگریس کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن ہے کیونکہ ان پارٹیوں کے پاس وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے کوئی ایسا مناسب اُمیدوار نہیں ہے ، جسے کیجروال جیسی مقبولیت حاصل ہو۔
اگرچہ عام آدمی پارٹی نے سال 2014ء اور سال 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب سے یہ پارٹی معرض وجود آگئی ہے ،یہ دلی اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کی ایک من پسند جماعت رہی ہے۔
حالانکہ عام آدمی پارٹی نے سال 2013ء کے دہلی اسمبلی انتخابات ، جو اس کا پہلا انتخاب تھا ، اس میں انہوں نے کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
اس پارٹی نے 29.5 فیصد ووٹ شرح حاصل کرتے ہوئے محض 28سیٹیں جیت لی تھیں۔لیکن تقریباً پانچ سال بعد یعنی سال 2015ء کے اسمبلی انتخابات میں اسی پارٹی نے54.3 فیصد ووٹوں کے بل پر 70نشستوں پر مشتمل اسمبلی کی 67سیٹیں حاصل کرکے اپنی بھاری جیت درج کرالی ۔
بی جے پی دہلی کے انتخابات قومی نوعیت کی اپنی کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے لڑے گی ۔ ان میں شہریت ترمیمی ایکٹ پاس کرنا، دفعہ 370ختم کرنا ، رام مندرکی تعمیر کی حمایت اور تین طلاق جیسے معاملے شامل ہوں گے ۔
لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں کن باتوں کی بنا پر اپنے اُمید وار منتخب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دراصل دہلی اسمبلی انتخابات میں مقامی مسائل کو دیکھ کر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔
ان انتخابات کی مہم کے دوران عام آدمی پارٹی کی بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اپنی حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ کارگردگی کو سامنے لائیں ۔جھارکھنڈاور ہریانہ کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی لوگوں نے قومی نوعیت کے معاملے کے بجائے مقامی مسائل کو دیکھ کر اپنے اُمیدواروں کو ووٹ دیا۔
مجھے لگتا ہے کہ دہلی کے رائے دہندگان بھی قومی معاملے کے بجائے دہلی کی ریاستی حکمرانی سے متعلق مسائل کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دیں گے ۔
ووٹروں کا ریاستی مسائل کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دینے کے رجحان کے نتیجے میں عام آدمی پارٹی اپنے حریفوں سے آگے رہے گی ۔کیوںکہ دہلی کے لوگ ویسے بھی کیجروال حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔
جائزوں کے اعداد و شمار سے بھی یہی عندیہ ملتا ہے کہ دہلی کے لوگ دہلی حکومت کی مختلف اسکیموں کو ذہن میں رکھ کر انتخاب میں حصہ لیں گے ۔
مختلف ریاستوں میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ رائے دہندگان نے قومی نوعیت کے معاملات پر نہیں بلکہ ان ریاستوں کے مقامی مسائل کو ذہن میں رکھ کر اپنے من پسند اُمیدواروں کا منتخب کیا ہے۔
سی ایس ڈی ایس کے سروے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ دہلی کے ووٹرس مرکز میں مودی کی جانب سے کیے گئے کام کو دیکھ کر نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سروے کے دوران 55 فیصد لوگوں نے بتایا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کی دہلی حکومت کے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا ووٹ دیں گے۔ اس سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لوگ عام آدمی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی سے کافی مطمئن ہیں۔اگر چہ مرکزی حکومت کی کارکردگی کو بھی سراہا جاتا ہے۔
لیکن ہریانہ اور جھارکھنڈ کی طرح دہلی میں بھی اس وجہ سے بی جے پی کو ووٹ نہیں ملیں گے کہ قومی معاملات میں اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے ۔
اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ ، جو مرکزی سرکار کی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں، وہ بھی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اپنی پہلی پسند رکھتے ہیں۔
سروے کے دوران ہر پانچ میں سے دو سے زائد افراد نے بتایا ہے کہ وہ مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی سے مکمل طور سےمطمئن ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا رجحان ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی بہت مقبول جماعت ہے ۔ اسے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 58فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ لیکن اسکے باوجود اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔
اسی طرح جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کا ووٹ شرح 22 فیصد کم ہوگیا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔اسلئے لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو دلی اسمبلی انتخابات میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ووٹروں کیلئے پارٹیوں سے زیادہ اُمیدواروں کے چہرے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو اس معاملے میں بھی فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ بی جے پی کے پاس وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے ایسا کوئی اُمید وار نہیں ہے ، جسے مقبول عام اروند کیجروال کے مقابلے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
حالانکہ دہلی میں بی جے پی کے کئی لیڈران ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مقبولیت کے لحاظ سے اروند کیجر وال کے قریب بھی نہیں ہے۔اسی لئے بی جے پی دلی اسمبلی انتخابات بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کے بل بوتے پر لڑے گی ۔
نریندر مودی دہلی کے رائے دہندگان میں بہت مقبول ہیں لیکن دہلی گورننس سٹیڈی نے عندیہ دیا ہے کہ کیجر وال کی مقبولیت مودی کے مقابلے میں دسفیصد زیادہ ہے۔ اس لئے اگر مقابلہ کیجر وال اور مودی کے درمیان ہوا تو اول الذکر زیادہ مضبوط ثابت ہونگے ۔
اب جبکہ دہلی اسمبلی کے انتخابات 8فروری کو ہورہے ہیں اور اس میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ،آنے والے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوجائے گی ۔تاہم یہ طے ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی نے رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کے لئے اپنا بیانیہ صرف مقامی مسائل سے متعلق ہی رکھا تو ان انتخابات میں اس کی دوسری بار جیت یقینی ہے۔