ETV Bharat / bharat

ایودھیا کیس پر فیصلے سے قبل مسلم دانشوروں کی اپیل - muslim intellectuals on ayodhya case

سپریم کورٹ کی طرف سے ایودھیا کیس پر فیصلہ سنانے جانے میں محض چند روز ہی باقی بچے ہیں، جس کے پیش نظر مسلم دانشوروں نے عوام سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپیل کی ہے۔

muslim intellectuals on ayodhya case
author img

By

Published : Nov 6, 2019, 10:42 PM IST


ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے ضلع انتظامیہ کی جانب سے گلی محلوں اور دیگر جگہوں پر پیس میٹنگ کی جارہی ہے۔ اس موقع پر تمام مذہب کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے اس کے بعد کسی بھی طرح کا غم، غصے اور خوشی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی حالت میں نہ صرف شہر بلکہ ملک میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔

ایودھیا کیس پر فیصلے سے قبل مسلم دانشوروں کی اپیل

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے نائب صدر سجاد احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ 'دنیا کے تمام مسلمان سب سے پاک اور صاف جگہ مانتے ہیں مکہ اور مدینہ کو، جو عرب میں ہے ان کا یقین اور احساسات عرب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے جو لوگ ہیں خاص کر غیر مسلم بھائی وہ سمجھتے ہیں کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہے وہاں پر رام مندر بننا چاہیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر رام جی پیدا ہوئے تھے، تو جتنا ہمارے لیے مکہ اور مدینہ معنی رکھتا ہے اسی طرح ان کے لیے ایودھا معنی رکھتا ہے۔ کیوں کہ رام ان کے پیغمبر تھے، جنہوں نے انسانیت کا پیغام پہنچایا۔'

انھوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ اگر مندر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو وہ ملک کا پہلا شخص ہوگا جو مندر کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو وہ پہلا شخص ہوگا جو مسجد کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا۔

طلبہ یونین کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ پندرہ بیس سالوں سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، لہذا اب اس پر کوئی بھی سیاست نہ کریں جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے وہ تسلیم کرے اور ملک میں خوشی اور امن بحال کریں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ اسے مسلمانوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے سابق صدر مفتی زاہد کا کہنا ہے کہ بھارت کو امن کی شدید ضرورت ہے، ایودھیا کیس پر فیصلہ اگر مسلمانوں کے خلاف آتا ہے تو انھیں کوئی غم یا غصے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس پر سماعت مکمل کر لی ہے، امید کی جا رہی ہے کہ 17 نومبر سے قبل سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ سنا سکتا ہے۔


ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے ضلع انتظامیہ کی جانب سے گلی محلوں اور دیگر جگہوں پر پیس میٹنگ کی جارہی ہے۔ اس موقع پر تمام مذہب کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے اس کے بعد کسی بھی طرح کا غم، غصے اور خوشی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی حالت میں نہ صرف شہر بلکہ ملک میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔

ایودھیا کیس پر فیصلے سے قبل مسلم دانشوروں کی اپیل

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے نائب صدر سجاد احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ 'دنیا کے تمام مسلمان سب سے پاک اور صاف جگہ مانتے ہیں مکہ اور مدینہ کو، جو عرب میں ہے ان کا یقین اور احساسات عرب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے جو لوگ ہیں خاص کر غیر مسلم بھائی وہ سمجھتے ہیں کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہے وہاں پر رام مندر بننا چاہیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر رام جی پیدا ہوئے تھے، تو جتنا ہمارے لیے مکہ اور مدینہ معنی رکھتا ہے اسی طرح ان کے لیے ایودھا معنی رکھتا ہے۔ کیوں کہ رام ان کے پیغمبر تھے، جنہوں نے انسانیت کا پیغام پہنچایا۔'

انھوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ اگر مندر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو وہ ملک کا پہلا شخص ہوگا جو مندر کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو وہ پہلا شخص ہوگا جو مسجد کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا۔

طلبہ یونین کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ پندرہ بیس سالوں سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، لہذا اب اس پر کوئی بھی سیاست نہ کریں جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے وہ تسلیم کرے اور ملک میں خوشی اور امن بحال کریں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ اسے مسلمانوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے سابق صدر مفتی زاہد کا کہنا ہے کہ بھارت کو امن کی شدید ضرورت ہے، ایودھیا کیس پر فیصلہ اگر مسلمانوں کے خلاف آتا ہے تو انھیں کوئی غم یا غصے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس پر سماعت مکمل کر لی ہے، امید کی جا رہی ہے کہ 17 نومبر سے قبل سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ سنا سکتا ہے۔

Intro:بابری مسجد مقدمے کے فیصلے سے قبل مسلم اسکالرز کی رائے اور اپیل


Body:ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں بابری مسجد ملکیت مقدمے کے فیصلے آنے میں چند روز باقی ہے، فیصلے آنے سے پہلے مسلم اسکالرز کی رائے اور ملک کے مسلمانوں سے اپیل۔

ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے ضلع انتظامیہ کی جانب سے گلی محلوں اور دیگر جگہوں پر پیس میٹنگ کی جارہی ہے۔ سبھی مذہب کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے اس کے بعد کسی بھی طرح کا غم، غصے اور خوشی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے کسی بھی حالت میں نہ صرف شہر بلکہ ملک میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔

سجاد احمد بھٹ، سابق نائب صدر طلبہ یونین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کہنا ہے دنیا کے سبھی مسلمان سب سے پاک اور صاف جگہ مانتے ہیں مکہ اور مدینہ کو، جو عرب میں ہے ان کا یقین اور احساسات عرب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح
ہندوستان کےجو لوگ ہیں خاص کر غیر مسلم بھائی وہ سمجھتے ہیں کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہے وہاں پر رام مندر بننا چاہیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر رام جی پیدا ہوئے تھے، تو جتنا ہمارے لیے مکہ اور مدینہ معنی رکھتا ہے اسی طرح ان کے لئے ایودھا معنی رکھتا ہے۔ کیوں کہ رام ان کے پیغمبر تھے، جنہوں نے انسانیت کا پیغام پہنچایا۔

ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مساجد ہیں ایسا نہیں ہے کہ کوئی ہمارے مذہب پر حملہ کر رہا ہے اگر سپریم کورٹ مندر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو میں ملک کا پہلا شخص ہوگا جو مندر کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھوں گا اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو میں پہلا شخص ہوگا جو مسجد کی
تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھوں گا۔ کہنا کا مطلب یہ ہے کہ مندر، مسجد گرجا گھر یہ سب اشور اللہ کے گھر ہوتے ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے اس پر سیاست کھیلی جا رہی ہے کوئی بھی اب سیاست نہ کریں جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے وہ تسلیم کرے اور ملک میں خوشی اور امن بحال کریں۔


ریحان اختر، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ دینیات کا کہنا ہے ہندوستان کا پرانا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا، چالیس دن سنوائی ہوئی اور اس میں جو جج تھے اور تمام فریک کے جو وکلاء تھے تمام لوگوں نے اپنا ثبوت رکھے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف انڈیا اور ججز کی کمیٹی تھی انہوں نے اس کو سنا اب فیصلہ محفوظ رکھ لیا گیا ہے۔ اب فیصلہ سی جی آئی کو کرنا ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا لیکن جماعت علمائے ہند اور جو مسلمانوں کے وکلاء تھے انہوں نے سارے پیپر، دستاویز وہاں رکھے۔ مسلمان مطمئن ہے کہ جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے گا ہم اس سے اطمینان بخش ہے۔


مفتی زاہد، سابق صدر شعبہ دینیات کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہمارے ملک میں امن و امان کی شدید ضرورت ہے مختلف بہانوں سے کچھ لوگ آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سب سے زیادہ سنجیدہ اور جذباتی مسئلوں میں سے ایک مسئلہ ہے۔ عدالتوں میں جب کوئی مسئلہ جاتا ہے تو اس میں ہمیشہ یہ امکان رہتے ہیں کہ اس میں ایک فریک کی جیت اور دوسرے کی ہار ہو جائیں ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ ہماری سب سے بڑی عدالت ہے ہوسکتا ہے ہم اس کے فیصلے سے مطمئن نہ رہے ہم سمجھتے ہیں ہمارے مطابق ہونا چاہیے، لیکن وہ سب سے بڑی عدالت ہے ہمارے ملک کی۔ لہذا ہمیں اس کے خلاف کوئی غم اور غصے کا اظہار نہیں کرنا ہے اس کو پوری طرح پسند نہ کرنے کے باوجود پوری طرح امن وامان قائم رکھنا ہے۔


۱۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔۔ مفتی زاہد۔۔۔۔۔سابق صدر۔۔۔شعبہ دینیات اے ایم یو۔ ( پہچان لال ٹوپی)

۲۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔۔ریحان اختر۔۔۔۔ اسسٹنٹ پروفیسر۔۔۔۔شعبہ دینیات۔۔۔ اے ایم یو۔۔۔۔۔۔ (پہچان ہلکی داڑھی)

۳۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔۔سجاد احمد بھٹ۔۔۔۔۔۔ سابق نائب صدر۔۔۔۔۔طلبہ یونین اے ایم یو۔



Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.