ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے ضلع انتظامیہ کی جانب سے گلی محلوں اور دیگر جگہوں پر پیس میٹنگ کی جارہی ہے۔ اس موقع پر تمام مذہب کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے اس کے بعد کسی بھی طرح کا غم، غصے اور خوشی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی حالت میں نہ صرف شہر بلکہ ملک میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے نائب صدر سجاد احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ 'دنیا کے تمام مسلمان سب سے پاک اور صاف جگہ مانتے ہیں مکہ اور مدینہ کو، جو عرب میں ہے ان کا یقین اور احساسات عرب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے جو لوگ ہیں خاص کر غیر مسلم بھائی وہ سمجھتے ہیں کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہے وہاں پر رام مندر بننا چاہیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر رام جی پیدا ہوئے تھے، تو جتنا ہمارے لیے مکہ اور مدینہ معنی رکھتا ہے اسی طرح ان کے لیے ایودھا معنی رکھتا ہے۔ کیوں کہ رام ان کے پیغمبر تھے، جنہوں نے انسانیت کا پیغام پہنچایا۔'
انھوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ اگر مندر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو وہ ملک کا پہلا شخص ہوگا جو مندر کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو وہ پہلا شخص ہوگا جو مسجد کی تعمیر کے لیے پہلی اینٹ رکھے گا۔
طلبہ یونین کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ پندرہ بیس سالوں سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، لہذا اب اس پر کوئی بھی سیاست نہ کریں جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے وہ تسلیم کرے اور ملک میں خوشی اور امن بحال کریں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ اسے مسلمانوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے سابق صدر مفتی زاہد کا کہنا ہے کہ بھارت کو امن کی شدید ضرورت ہے، ایودھیا کیس پر فیصلہ اگر مسلمانوں کے خلاف آتا ہے تو انھیں کوئی غم یا غصے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس پر سماعت مکمل کر لی ہے، امید کی جا رہی ہے کہ 17 نومبر سے قبل سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ سنا سکتا ہے۔