رواں برس 27 جنوری کو آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کی ، جس میں بھارتی پارلیمان سے آندھرا پردیش قانون ساز کونسل ( اے پی ایل سی ) کو موقوف کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے اس ضمن میں تیلگو دیشم پارٹی ، جو فی الوقت حزب اختلاف کی جماعت ہے، اس کے بانی این ٹی راما راؤ کے ماضی کے اقدام سے ہی رہنمائی حاصل کی ہے۔
راما راؤ نے سنہ 1985 میں ریاستی اسمبلی کا ایوان بالا ( اے پی ایل سی ) کامیابی کے ساتھ ختم کیا تھا۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ قانون ساز کونسل کو اسکے بعد سنہ 2007ء میں دوبارہ بحال کیا گیا اور یہ کام کسی اور نے نہیں بلکہ جگن موہن ریڈی کے والد وائی ایس راجیش کھرا ریڈی نے انجام دیا تھا۔
اس قرار داد پر بحث کا جواب دیتے ہوئے جگن موہن ریڈی نے کہا کہ آندھرا پردیش قانون ساز کونسل کی عوامی افادیت ختم ہو چکی ہے اور یہ اب ادارہ محض خزانہ عامرہ پر ایک بوجھ ہے۔
انہوں نے اپنے اس اقدام کو یہ کہہ کر جواز بخشا تھا کہ یہ ترقیاتی عمل کے حوالے سے ریاست کو حاصل مرکزیت میں ایک رکاوٹ ہے۔ وہ اسلئے کہ قانون ساز کونسل فی الوقت آندھرا پردیش قانون ساز کونسل ڈی سنٹرلائزیشن اینڈ انکلیو سیو ڈیولپمنٹ آف آل ریجنز ( اے پی ڈی آئی ڈی اے آر) بل 2020 اور آندھرا پردیش کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( اے پی سی آر ڈی اے ) منسوخی بل 2020 کو پاس کرنے میں بھی ایک رکاؤٹ بنا ہوا ہے۔
ثانی الذکر بل پاس ہوجانے کے نتیجے میں وہ ایکٹ ختم ہوجائے گا، جس کے تحت سابق وزیر اعلیٰ این چندر بابو نائیڈو نے امرا وتی کو آندھرا پردیش کی راجدھانی بنانے کا عظیم اقدام شروع کیا تھا۔
جبکہ اول الذکر بل ،ریاست کی تین راجدھانیاں وشاکھا پٹنم( انتظامی راجدھانی ) ، کرنول ( جوڈیشل راجدھانی ) اور امرا وتی ( لیجسلیٹو راجدھانی ) قائم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔تین راجدھانیاں قائم کرنے کا یہ انوکھا خیال جگن موہن ریڈی کے ذہن کی اختراع ہے اور وہ اس ضمن میں مسلسل پروپگنڈا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ترقیاتی عمل کی غیر مرکوزیت ہوگی ۔ آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں یہ دونوں بل پاس ہوجانے کے بعد آندھرا پردیش قانون ساز کونسل نے انہیں جائزے کے لئے سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے، تاکہ وہ اس ضمن میں رپورٹ پیش کرے۔
ریاست کی قانون ساز کونسلیں
ایک آئینی ادارے کی حیثیت سے آندھرا پردیس قانون سازکونسل کی ایک افسانوی تاریخ ہے ۔ جیسا کہ ملک کی کئی دیگر ریاستوں کی قانون ساز کونسلوں کی ہے۔ آندھرا پردیش قانون ساز کونسل کو سب پہلے سنہ 1965 میں آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں پاس کی گئی ایک قرار داد کی بنا پر قائم کیا گیا تھا۔ تیلگو دیشم کے بانی این ٹی راما راؤ نے سنہ 1985ء میں اس قانون ساز کونسل کو ختم کردیا۔انہوں نے اس ادارے کو غیر سود مند اور خزانہ عامرہ پر ایک بوجھ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ غیر منتخب اور غیر نمائندہ ادارہ صرف سیاسی مراعات دینے کے لئے استعمال ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی بھی بامعنی قوانین کو پاس کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اب تین دہائیوں بعد کم و بیش یہی استدلال جگن موہن ریڈی قانون ساز کونسل کو ختم کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں۔ آندھرا پردیش قانون ساز کونسل کو سنہ 2007ء میں وائی ایس آر نے دوبارہ بحال کیا تھا۔
سنہ 2019میں جموں کشمیر کی تنظیم نو ( جس میں کئی دیگر اقدامات کے علاوہ جموں کشمیر کی قانون ساز کونسل کا خاتمہ بھی شامل ہے ) کے بعد اب اس وقت ملک کی کل چھ ریاستوں میں قانون ساز کونسلیں قائم ہیں۔
ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، بہار، کرناٹک، مہاراشٹرا، تلنگانہ اور اُترپردیش شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش میں قانون ساز کونسل قائم کرنے کے لیے سنہ 1956 میں ایکٹ پاس کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اسے عمل نہیں گیا ہے۔
راجستھان اور آسام میں قانون ساز کونسلیں قائم کرنے کی تجاویز پارلیمنٹ میں التوا میں پڑی ہوئی ہیں۔ پنجاب ( 1970میں ) ، تامل ناڈو(1986میں ) اور مغربی بنگال ( 1969میں ) ریاستوں نے ابتدائی طور پر قانون ساز کونسلیں قائم کرنے کے بعد ختم کردیں۔
جبکہ تامل ناڈو میں دوبارہ قانون ساز کونسل بحال کرنے کے لیے سنہ 2010 میں اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کی گئی ۔جبکہ اس میں پارلیمنٹ نے بھی قانون وضع کیا لیکن اس سے پہلے کہ اس شدہ ایکٹ کو نافذ کیا جاتا ، ریاست میں ایک نئی حکومت آگئی ۔
نئی بر سراقتدار جماعت نے سنہ 2011 میں ایک نئی قرار داد پاس کی ،جس کے ذریعے مجوزہ قانون ساز کونسل کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ۔ اس کے بعد 4مئی 2012 کو راجیہ سبھا میں تامل ناڈو قانون ساز کونسل ( منسوخی ) بل2012 متعارف کرائی گئی ۔ غالباً یہ اقدام احتیاطی طور پر کیا گیا ۔ اس طرح سے اس وقت تامل ناڈو میں قانون ساز کونسل قائم نہیں ہے۔
آئینی دفعات
ریاستوں میں قانون ساز کونسلوں کا اس طرح سے بننا اور ختم ہوجانے کا سبب در اصل آئین ہند کی متعلقہ دفعات کا کمزور ہونا ہے۔ در اصل آئین کی رو سے ریاستوں میں ایوان بالا کا ہونا لازمی نہیں ہے جیسا کہ پارلیمنٹ میں اس کا ہونا ضروری ہے۔
آئین کی دفعہ 169کی شق 1کے مطابق اگر کسی ریاست کی اسمبلی قانون ساز کونسل کو قائم کرنے یا قانون ساز کونسل کو ختم کرنے کے لئے اکثریت رائے سے قرارداد پاس کرئے تو اس صورت میں پارلیمنٹ قانون وضع کرکے اسکی منظوری دے سکتا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسمبلی میں مذکورہ قرار داد کم از کم دو تہائی یا اس سے زیادہ اکثریت سے پاس کی گئی ہو۔ اس طرح سے ریاستوں کو قانون ساز کونسل قائم کرنے یا ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
مزید یہ کہ پارلیمنٹ کی متذکرہ دفعہ میں 'کرسکتا' لفظ استعمال ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ ریاست کی اسمبلی میں پاس کردہ ایسی قرار داد پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ یعنی وہ اس پر عمل کربھی سکتا ہے اور نہیں بھی نہیں بھی کرسکتا ہے۔
چونکہ آئین کی دفعہ 168میں ان ریاستوں کا نام درج ہے ، جن میں قانون ساز کونسل قائم ہے ، اس لئے ہر بار جب کسی ریاست میں قانون ساز کونسل قائم کی جائے یا ختم کی جائے تو اس دفعہ کے تحت درج ریاستوں کے ناموں کی فہرست کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تناطر میں آئین کی دفعہ 169کی شق 3میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں میں کی جانے والی ان تبدیلیوں کے لئے ان قوائد پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، جو آئین کی 368ویں ترمیم کے بعد بتائے گئے ہیں۔
آئینی ضوابط کے تحت ریاستوں میں قانون ساز کونسلوں کا درجہ ویسا ہی ہے ، جیسا کہ پارلیمنٹ میں راجیہ سبھا کا ہے ، اس لئے مالی بلوں کو چھوڑ کر باقی تمام قسم کی بلوں کو پاس کرنے کیلئے دونوں ہائوسز کی منظوری لازمی ہے۔ لیکن جہاں تک ان بلوں میں ترمیم اور انہیں منسوخ کرنے کا تعلق ہے ، اس ضمن میں ریاستوں کے ہائوسز کے اختیارات یکساں نہیں ہیں۔
اگر اسمبلی ان ترمیمات کو مسترد کرتی ہے جن کی تجویز قانون ساز کونسل نے پیش کی ہو، یا اگر کونسل کسی بل کو یکسر مستر کرتا ہے یا اگر کونسل، اسمبلی میں پاس شدہ کسی بل کے حوالے سے تین ماہ کے اندر اندر کوئی فیصلہ نہیں لیتا ہے، تو ان ساری صورتوں میں اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ متعلقہ بل کو دوبارہ پاس کرے اور اسے منظوری کے لیے کونسل کو بھیج دے۔لیکن اگر کونسل نے اس کے بعد بھی بل کو دوبارہ مسترد کردیا یا اس میں کچھ ترمیمات( جو اسمبلی کو منظور نہ ہوں) کرنے کے بعد اسے پاس کیا یا پھر سرے سے ہی ایک ماہ کے اندر اندر کوئی فیصلہ نہیں کیا تو ایسی صورتوں میں دونوں ہائو سز کی جانب سے وہی بل پاس ہوا سمجھا جائے گا جو اسمبلی نے دوسری بار پا س کیا تھا۔
ریاستوں میں بل پاس کرنے کے لیے وقت کا تعین صرف قانون ساز کونسل کے لیے کیا گیا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں وقت کے تعین کا اطلاق دونوں ہاؤسز یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر ہوتا ہے۔
دفعہ 108کے مطا بق ایسی کوئی صورت نہیں ہے کہ دونوں ہاؤسز ایک ساتھ بیٹھ کرکسی بل پر اختلافی امور کو دور کرسکیں۔قانون ساز کونسل کے حوالے سے پارلیمنٹ ایک قانون کے ذریعے نئی تشریحات کرسکتا ہے۔ لیکن راجیہ سبھا کے حوالے سے قوائد و ضوابط طے شدہ ہیں۔ راجیہ سبھا کے برعکس قانون ساز کونسل کے ممبران صدر ِہند یا نائب صدرِ ہند کے عہدوں کے انتخابی عمل کے شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔
تاہم آئینی دفعات میں بات واضح ہوجاتی ہے کہ آندھرا پردیش کی آئین ساز اسمبلی اس سوال پر منقسم رہی تھی کہ کیا اس ریاست میں قانون ساز کونسل ہونا چاہیے یا نہیں۔یہی وہ استدلال ہے ، جس کا استعمال این ٹی راما رواؤ نے قانون ساز کونسل ختم کرنے کے لئے پہل کیا تھا اور اب جگن موہن ریڈی بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔
در اصل ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے بعض ممبران کا ماننا تھا کہ قانون ساز کونسل عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا ہے اور اسکی وجہ سے قانون سازی کے عمل میں خوا ہ مخواہ تاخیر ہوجاتی ہے۔
آندھرا پردیش میں پیدا ہورہی صورتحال
اس سارے پس منظر کے بعد اب سوال یہ ہے کہ ریاست میں کس طرح کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ جب سے آندھرا پردیش کی اسمبلی نے قانون ساز کونسل ختم کرنے کے لئے قرار داد پاس کی ہے، معاملہ بھارت کے پارلیمنٹ میں آگیا ہے۔تاہم جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اس طرح کی قرار داد پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔بلکہ توقع ہے کہ موجودہ بجٹ اجلاس میں مصروفیات اورمختلف امور کی ترجیحات کے پیش نظر اس معاملے کو التوا میں ڈالا جائے گا۔جبکہ 12فروری سے یکم مارچ تک پارلیمنٹ کے پاس فرصت ہوگی، اسلئے ممکن ہے کہ ان ایام میں اس معاملے کے لیے کچھ وقت نکالا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب اگر آندھرا پردیش قانون ساز کونسل نے تین ماہ کے متعین وقت کے اندر اندریہ دونوں بل ( اے پی ڈی آئی ڈی اے آر) بل 2020 اور ( اے پی سی آر ڈی اے ) منسوخی بل 2020 واپس بھیج دی تو ایسی صورت میں اسمبلی کو اس مسئلے پر دوبار غور کرنا ہوگا۔
لیکن اگر اسمبلی نے یہ دونوں بل قانون ساز کونسل کی تجویز کردہ تبدیلوں کے ساتھ یا ان کے بغیر بھی دوبارہ پاس کئے تو پھریہ بل توثیق کے لئے سیدھے آندھرا پردیش کے گورنر کے پاس جائیں گے ۔ اس صورت میں آئین کی دفعہ 200اور201کا اطلاق ہوگا۔
دفعہ 200کے مطابق گورنر یہ بل جائزہ لینے کے لئے صدرِ ہند کے پاس بھیج سکتا ہے۔اس طرح کی صورتحال میں صدرِ ہند یا تو ان بلوں کی توثیق کرے گا یا پھر ان کی توثیق کئے بغیر چھ ماہ کے اندر اندر انہیں دوبارہ جائزہ لینے کے لئے آندھرا پردیش کے ہاؤسز میں بھیج دے گا۔ اس صورت میں اگر آندھراپردیش کی اسمبلی یا دونوں ہاؤسز نے انہیں پاس کیا تو یہ بل واپس صدرِ ہند کو بھیج دی جائیں گی۔لیکن آئین میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ کیا اس سب کے بعد صدرِ ہند ان بلوں پر مہر توثیق ثبت کرنے کی پابند ہیں یا نہیں۔
ایوان بالا کی اہمیت
ایوان بالا کی کیا اہمیت ہے؟اس پر بحث اتنی ہی پرانی ہے ، جتنی خود اس کی تاریخ ۔یہ 18ویں صدی کی بات ہے جب امریکہ میں آئین سازی ہورہی تھی۔تھامس جفر سن نے پارلیمنٹ میں دو ہاؤسز قائم کرنے پر جارج واشنگٹن کے سامنے احتجاج کیا۔ واشنگٹن نے اُ س سے پوچھا کہ آپ چائے کو طشتری میں کیوں ڈالتے ہیں؟ تو اس نے جواباً کہا اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ۔ پھر واشنگٹن نے کہا ، بالکل اسی طرح ہم قانون سازی کرنے کے بعد اسے پارلیمانی طشتری میں ٹھنڈا کرنے کے لئے ڈالتے ہیں۔
آئین ہند مرتب کرنے والوں کا اس بات پر خاصا بحث و مباحثہ ہوا تھا کہ ایوان بالا کا کردار کیا ہے۔آئین ساز اسمبلی میں ہوئے بحث و مباحثہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک چھوٹے سے طبقے کی مخالفت کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ ایوان بالا کو قائم کرنے کے حق میں تھے ۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ راجیہ سبھا کے صاحبانِ علم لوگ، جو لوک سبھا کے ممبران کی طرح سیاسی مجبوریوں میں جکڑے ہوے نہیں ہوتے ہیں، کسی بھی قانون سازی کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ایوان بالا کے قیام کو گوپا لا سوامی کی پر زور حمایت حاصل تھی ۔ انہوں نے ہی اس ضمن میں قرار داد پیش کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ایوان بالا میں کسی بھی قانون سازی پر 'بااثر بحث و مباحثہ' یقینی ہوگا اور اس کی وجہ سے قانون سازی کی عمل میں تاخیر ہوگی اور اس سے وہ جوش بھی قدرے ٹھنڈا ہو گا، جس جوش کے ساتھ یہ قانون سازی کی گئی ہوگی ۔
یعنی اس طرح کے عمل کے نتیجے میں کوئی بھی قانون سوچ سمجھ کر اور ٹھنڈے دماغ سے غور و فکر کے بعد ہی معرض وجود آے گا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایوان بالا ایک ایسا ہتھیار ہوگا، جس کی مدد سے کسی قانون کو معرض وجود لانے کا عمل دھیما ہوگا اور اس دوران دانش ور طبقہ کو اس قانون کا اپنے تجربات کی روشنی میں جائزہ لینے کا موقعہ ملے گا۔
لوک ناتھ مشرا نے ایوان بالا کو ایک ہوش مند ہاؤس سے تعبیر کیا۔ یعنی ایک ایسا ہاؤس جس میں مجوزہ قانون کے معیار کا خیال رکھا جائے گا۔اس ہاؤس کے ممبران کو یہ حق حاصل ہوگا، کہ انہیں میرٹ کی بنیاد پر سنا جائے اور وہ مسائل کے تئیں اپنی سنجیدہ رائے پیش کرسکیں۔
ایم انن تھسایانم آئینگر کا کہنا تھا کہ اس پیلٹ فارم یعنی راجیہ سبھا میں ذہین لوگوں کو اپنی ذہانت کا اظہار کرنے کا موقعہ فراہم ہوگا۔ دوسری جانب محمد طاہر کا کہنا تھا کہ ایوان بالا برطانیہ کا ایک سامراجی ہتھیار تھا، جس کے ذریعے جمہوری طور منتخب ہاؤس کے کام کاج میں روڑے اٹکائے جارہے تھے۔پروفیسر شبن لعل سکسینہ کسی ملک میں بھی ایوان بالا نے ترقی میں مدد نہیں کی ہے۔
آگے کا راستہ: قانون ساز کونسلوں کی بحالی
جہاں تک ریاستوں میں قائم قانون ساز کونسلوں کا تعلق ہے، ان کی ترکیب کافی حد تک فرسودہ ہیں اور کچھ تک موجودہ وقت کے تقاضوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتے ہیں۔ محض گریجویٹوں اور ٹیچرس کو نمائندگی دینا آج کے دور کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
جس طرح سے پارلیمنٹ نے 73ویں اور74ویں آئینی ترمیمات کے ذریعے پنچایتوں اور میونسپل اداروں کے لئے نئے قوائد بنائے ، اسی طرح اسے آئین کی دفعہ 171کی شق 2کے تحت حاصل اختیارات کے ذریعے ریاستوں میں قانون ساز کونسلوں کو حکومتوں کے لئے زیزدہ موثر بنانا چاہیے۔
اس طرح کی تنظیم نو سے قانون ساز کونسل کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوگا، جیسا کہ آئین کو مرتب کرنے والوں نے تصور کیا تھا۔اس کے نتیجے میں مزید ریاستیں قانون ساز کونسلیں قائم کرنے کے لئے راغب ہوجائیں گی اور انجام کار ان اداروں کو زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی۔
وِویک کے اگنی ہوتری
سابق سیکرٹری جنرل راجیہ سبھا ، پارلیمنٹ آف انڈیا