ETV Bharat / bharat

نیا طرز حیات اور سودیشی نظامِ معیشت اپنانے کی ضرورت

author img

By

Published : Apr 22, 2020, 12:28 PM IST

عالمی یوم ارض کے موقع پر معروف مصنف اور نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر اندرا شیکھر سنگھ نے کہا کہ قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔

عالمی یوم ارض
عالمی یوم ارض

عالمی یومِ ارض سنہ 1970ء سے منایا جارہا ہے لیکن اس وقت لاک ڈاون کی وجہ سے امسال یوم ارض پر یعنی 22 اپریل 2020ء، کو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں زمین ترو تازہ ہے۔

ماہر ارضیات جان میک کونل، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی شروعات ہوئی تھی، جنت سے یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے کیونکہ آج نہ ہی بادلوں میں مہلک جزیات شامل ہیں اور نہ ہی آلودگی کا کہیں نام و نشان دیکھنے کو مل رہا ہے نیز آکیسجن کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حشرات الارض جوش و خروش میں ہیں۔

اس خوش کن صورتحال کے تناظر میں ہم آج خود سے کئی سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ مثلاً، کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور ہوا کو آلودگی سے بچائے رکھنا ممکن ہے؟

جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اس کرہ ارض پر تباہی مچادی ہے۔

آج انسانی زندگیوں کو جوہری جنگ سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے لاحق ہوگیا ہے۔ ماحولیات کی اس تباہی کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

امریکی ماہر لسانیات، فلسفی اور مورخ نوم چومسکی نے حال ہی میں کہا کہ 'بھارت اور پاکستان سُکڑتے ہوئے آبی ذخائر کی وجہ سے (مستقبل میں) نیو کلیئر جنگ کرسکتے ہیں۔ اس تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ یہ کرہ ارض اب مزید تباہی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا اور بیماریاں ہمارے لیے قدرت کی طرف سے کچھ عندیے دے رہی ہیں۔

قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔

ہم یہ نئی دُنیا کیسے بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم اس مادی دُنیا کو ترک کریں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کو ترک کر کے جنگل باسی بن جائیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس ایک جان لیوا آفت ہے لیکن یہ آفت بھی ہمیں اندھا دھند چیزوں کی کھپت کرنے سے باز آجانے کا موقع فراہم کررہی ہے۔ یہ آفت ہمیں نئی عادات سکھا رہی ہے۔ ان نئی عادات کی بدولت ہماری ہوا آلودگی سے پاک ہوسکتی ہے اور ہمارا پانی شفاف ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے شہروں میں چڑیوں کی چچہاہٹ پھر سے سنائی دینے لگے گی۔

موسمیاتی تغیر کی تباہی سے بچنے کے لیے ہمیں پانچ اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور معیشت کی تعمیرِ نو کے لیے چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا۔ ہمیں چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ ہمیں معیشت میں ایک نئی جان ڈالنی ہوگی۔ ہمیں سودیشی نظام کو اپنانا ہوگا اور ہمیں ایگرو اکولوجی کو اپنانا ہوگا۔

ہمیں بھارت اور باقی دنیا کی تعمیر نو کے لیے ایک مضبوط گرین اکانومی ( آلودگی سے پاک، قابل تجدید وسائل کا استعمال کرنے) کی ضرورت ہے۔ گزشتہ صدی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کرہ ارض کی تباہی میں گزر گیا ہے۔

اب ہمیں دونوں کو یعنی ٹیکنالوجی اور کرہ ارض کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنعتی انقلاب کو از سر نو غیر آلودگی اور قابل تجدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر بپا کرنا ہوگا لیکن اس کی شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے؟ اس کی شروعات کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں کرہ ارض کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہوگی۔ یہ کرہ ارض زندہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف آلودگی ہے اور یہاں صرف جنگلات و آبی ذخائز ختم ہورہے ہیں۔ یہ زمین ابھی زندہ ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جڑنا ہوگا۔

ہمیں اس زمین، اس کے پہاڑوں اور دیگر وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ یہ زمین اور اسکے وسائل زندہ ہیں لیکن ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ جب اس معاملے میں ہمارا ضمیر زندہ ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی زمین پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات شروع کریں۔ ہماری ہر حرکت اور ہماری ہر چیز کے اثرات زمین پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہماری تمام تر ترقی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔

آبی ذخائر، ایندھن اور بجلی کا کم استعمال کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ اقدام ہوسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری بچت بھی ہوگی۔ ہمیں چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا اور ایندھن پر منحصر معیشت کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں متبادل معشیت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اس زمین کے محدود وسائل ہیں اور ان وسائل کا غیر ضروری استعمال اور انہیں لوٹنے کے عمل روکنا ہوگا۔

برعکس صورت میں اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں اُن چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا جن کی وجہ سے انسانوں اور اس کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

یار رکھیں، جب بھی آپ کوئی شئے خریدنے لگیں، تو پہلے سوچیں کہ کیا واقعی آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ کہ کیا کہیں یہ شئے زمین کے لیے نقصاندہ تو نہیں ہے؟

کھپت کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔ چیزوں کے دوبارہ استعمال کرنے کے حوالے سے بھارت میں کئی نرالے طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔

ہم کچن سے برآمد ہونے والے کھانے پینے کی بچی کُچی اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے ذریعے زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ ہم فضلہ (جس میں یوریا کی کافی مقدار ہوتی ہے) سے شہری باغیچوں کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ چیزیں ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس لیے کوئی بھی چیز پھینکنے سے پہلے ایک منٹ کے لیے رُک جائیں اور سوچیں کہ کہیں ہم اس کا کوئی اور استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اگر ہم دو منفی باتوں کو ترک کریں گے تو اس کے نتیجے میں ماحولیات کے حق میں کم از کم ایک مثبت بات دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انسان اس دنیا کے مالک نہیں ہیں بلکہ معروف امریکی ماہرِ ماحولیات الڈو لیوپاڈ کے مطابق انسان محض اس دنیا میں 'زمین کے نگران' ہیں۔

ہمیں یہ زمین اپنے آباء و اجداد کی وساطت سے ملی ہے اور ہمیں اسے اپنی آنے والی نسلوں کو دےکر جانا ہے۔ ہمارا کام یہاں لوٹ کھسوٹ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اپنی عیاشیوں کے لیے اس زمین اور اس کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنا ہے۔ ہمیں اس زمین میں نئی جان ڈالنے کے لیے نئے اصول اپنانے ہوں گے، جس میں ایندھن کا کم سے کم استعمال ہو اور کاربن کا کم اخراج ہو۔

اس ضمن میں ہمیں اپنی طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ آپ ایک فرد کی حیثیت سے اپنی حرکتوں پر غور کریں۔ آپ اپنی حرکتوں کو الگ تھلگ نہ سمجھیں بلکہ آپ پوری دُنیا کا ایک حصہ ہیں اور آپ کی حرکتوں کے اثرات پوری دُنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دُنیا کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون دیں۔

مہاتما گاندھی نے اب سے سو برس قبل ہی ہمیں ایک حل بتا دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں 'سودیشی' معشیت کا تصور دیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو خود انحصاری، قدر و منزلت اور باہمی اشتراک پر منحصر ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے کے منصوبے پر غور کیا اور پھر اس منصوبے کے خدوخال پر وسیع پیمانے پر لکھا بھی۔

انہوں نے کہا کہ 'ایسا کرنے ( ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے ) سے ہر گاؤں ضرورت پڑنے پر پوری دنیا کے مقابلے میں خود کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ یہ نظام دراصل پیداوار کو غیر مرتکز کرنے کا نظام ہے۔ اس معاشی نظام میں ہر گاؤں وافر مقدار میں اشیاء پیدا کرے گا اور اس کے بعد اضافی پیداوار کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے گا اور اس کے بدلے میں وہ چیزیں حاصل کرے گا، جو وہ خود پیدا نہیں کرپا تا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ 'سوادیشی' نظام کو اپنائیں۔ یہ طریقہ کار کوئی منفی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب دوسروں کا بائیکاٹ کرنا یا دوسروں سے نفرت کرنا ہے بلکہ یہ خود انحصاری کا ایک طریقہ کار ہے۔

ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں ہر وہ چیز خود پیدا کرنی چاہیے جو ہم کرسکتے ہیں۔ ادویات سے لے کر خوراک تک ہر چیز ہمیں اپنے آس پاس ہی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں مقامی سطح پر چیزیں پیدا کرنےکا اختیار حاصل ہے۔

ہمیں سودیشی(ملکی) نظام اور استحکام کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ جب بھی ہمیں کوئی چیز خریدنی ہو تو ہمیں پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس کے متبادل میں کوئی اور ایسی چیز استعمال کرسکتے ہیں، جسے مقامی طور پیدا کیا جاسکتا ہے؟

آخری مرحلے پر ہمیں ایگرو اکولوجی انڈسٹریل فوڈ سسٹم( یعنی ماحول دوست زرعی نظام) قائم کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مویشیوں اور پولٹری کے فارمز نے نہ صرف انسانی صحت کو تباہ کردیا ہے بلکہ ان کی وجہ سے زمین بھی مہلک ہوگئی ہے۔

موجودہ نظام کی وجہ سے دنیا میں کسانوں کی خود کشی، کینسر کے پھیلاؤ اور چھوٹے کسانوں کی حق تلفی اور اُن کا استحصال جیسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مہلک اجزاء کی ملاوٹ کی وجہ سے ہمارے دریا آلودہ ہوگئے ہیں۔ لوگ ناقص خوراک کی وجہ سے ذیابیطس اور کینسر جیسے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھاد کی سبسڈی کی وجہ سے ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔

انٹرنیشنل میز اینڈ وہیٹ امپرومنٹ سینٹر(CIMMYT) کے پرنسپل، سائنٹسٹ ایم ایل جاٹ نے اپنی ایک حالیہ تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ ایگرو اکولوجی کے استعمال سے نہ صرف ہم صحت مند غذا فراہم کرسکیں گے بلکہ ہماری خوراک میں کیمیکل اور دیگر نقصان دہ اجزاء کی شمولیت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں ہم کہاں سے شروعات کرسکتے ہیں؟ ہمیں اپنے گھروں سے اس کی شروعات کرنی ہوگی۔ ہم سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ ہم دھنیا جیسی چیزیں چھوٹے برتنوں میں اُگا سکتے ہیں۔

کوشش کریں کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ خود اُگائیں۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو کسانوں سے رابطہ کریں جو آپ کو یہ کام کرکے دے سکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں وہ پھلواریاں قائم کرسکتے ہیں ۔اس طرح سے ہم اپنے بچوں کو بھی سکھا سکتے ہیں کہ چیزیں کیسے اُگائی جاتی ہیں۔

ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہم گرین اکانومی قائم کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری زمین میں نئی جان پیدا ہوگئی اور ہمیں معاشی خود اختیاری حاصل ہوگی۔

اب جبکہ دُنیا اقتصادی بدحالی کا شکار ہوچکی ہے، بھارت کو از سر نو خود کو کھڑا کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی عادات اپنانی ہوں گی۔

مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ سودیشی نظامِ معیشت پہلے ہی ہمارے پاس ہے۔ آج اس یوم ارض پر ہمیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم سائنسی بنیادوں پر از سر نو متحرک ہوجائیں گے اور اپنی زمین کو تحفظ فراہم کریں گے۔

عالمی یومِ ارض سنہ 1970ء سے منایا جارہا ہے لیکن اس وقت لاک ڈاون کی وجہ سے امسال یوم ارض پر یعنی 22 اپریل 2020ء، کو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں زمین ترو تازہ ہے۔

ماہر ارضیات جان میک کونل، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی شروعات ہوئی تھی، جنت سے یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے کیونکہ آج نہ ہی بادلوں میں مہلک جزیات شامل ہیں اور نہ ہی آلودگی کا کہیں نام و نشان دیکھنے کو مل رہا ہے نیز آکیسجن کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حشرات الارض جوش و خروش میں ہیں۔

اس خوش کن صورتحال کے تناظر میں ہم آج خود سے کئی سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ مثلاً، کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور ہوا کو آلودگی سے بچائے رکھنا ممکن ہے؟

جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اس کرہ ارض پر تباہی مچادی ہے۔

آج انسانی زندگیوں کو جوہری جنگ سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے لاحق ہوگیا ہے۔ ماحولیات کی اس تباہی کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

امریکی ماہر لسانیات، فلسفی اور مورخ نوم چومسکی نے حال ہی میں کہا کہ 'بھارت اور پاکستان سُکڑتے ہوئے آبی ذخائر کی وجہ سے (مستقبل میں) نیو کلیئر جنگ کرسکتے ہیں۔ اس تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ یہ کرہ ارض اب مزید تباہی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا اور بیماریاں ہمارے لیے قدرت کی طرف سے کچھ عندیے دے رہی ہیں۔

قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔

ہم یہ نئی دُنیا کیسے بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم اس مادی دُنیا کو ترک کریں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کو ترک کر کے جنگل باسی بن جائیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس ایک جان لیوا آفت ہے لیکن یہ آفت بھی ہمیں اندھا دھند چیزوں کی کھپت کرنے سے باز آجانے کا موقع فراہم کررہی ہے۔ یہ آفت ہمیں نئی عادات سکھا رہی ہے۔ ان نئی عادات کی بدولت ہماری ہوا آلودگی سے پاک ہوسکتی ہے اور ہمارا پانی شفاف ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے شہروں میں چڑیوں کی چچہاہٹ پھر سے سنائی دینے لگے گی۔

موسمیاتی تغیر کی تباہی سے بچنے کے لیے ہمیں پانچ اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور معیشت کی تعمیرِ نو کے لیے چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا۔ ہمیں چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ ہمیں معیشت میں ایک نئی جان ڈالنی ہوگی۔ ہمیں سودیشی نظام کو اپنانا ہوگا اور ہمیں ایگرو اکولوجی کو اپنانا ہوگا۔

ہمیں بھارت اور باقی دنیا کی تعمیر نو کے لیے ایک مضبوط گرین اکانومی ( آلودگی سے پاک، قابل تجدید وسائل کا استعمال کرنے) کی ضرورت ہے۔ گزشتہ صدی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کرہ ارض کی تباہی میں گزر گیا ہے۔

اب ہمیں دونوں کو یعنی ٹیکنالوجی اور کرہ ارض کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنعتی انقلاب کو از سر نو غیر آلودگی اور قابل تجدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر بپا کرنا ہوگا لیکن اس کی شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے؟ اس کی شروعات کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں کرہ ارض کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہوگی۔ یہ کرہ ارض زندہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف آلودگی ہے اور یہاں صرف جنگلات و آبی ذخائز ختم ہورہے ہیں۔ یہ زمین ابھی زندہ ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جڑنا ہوگا۔

ہمیں اس زمین، اس کے پہاڑوں اور دیگر وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ یہ زمین اور اسکے وسائل زندہ ہیں لیکن ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ جب اس معاملے میں ہمارا ضمیر زندہ ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی زمین پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات شروع کریں۔ ہماری ہر حرکت اور ہماری ہر چیز کے اثرات زمین پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہماری تمام تر ترقی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔

آبی ذخائر، ایندھن اور بجلی کا کم استعمال کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ اقدام ہوسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری بچت بھی ہوگی۔ ہمیں چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا اور ایندھن پر منحصر معیشت کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں متبادل معشیت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اس زمین کے محدود وسائل ہیں اور ان وسائل کا غیر ضروری استعمال اور انہیں لوٹنے کے عمل روکنا ہوگا۔

برعکس صورت میں اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں اُن چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا جن کی وجہ سے انسانوں اور اس کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

یار رکھیں، جب بھی آپ کوئی شئے خریدنے لگیں، تو پہلے سوچیں کہ کیا واقعی آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ کہ کیا کہیں یہ شئے زمین کے لیے نقصاندہ تو نہیں ہے؟

کھپت کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔ چیزوں کے دوبارہ استعمال کرنے کے حوالے سے بھارت میں کئی نرالے طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔

ہم کچن سے برآمد ہونے والے کھانے پینے کی بچی کُچی اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے ذریعے زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ ہم فضلہ (جس میں یوریا کی کافی مقدار ہوتی ہے) سے شہری باغیچوں کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ چیزیں ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس لیے کوئی بھی چیز پھینکنے سے پہلے ایک منٹ کے لیے رُک جائیں اور سوچیں کہ کہیں ہم اس کا کوئی اور استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اگر ہم دو منفی باتوں کو ترک کریں گے تو اس کے نتیجے میں ماحولیات کے حق میں کم از کم ایک مثبت بات دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انسان اس دنیا کے مالک نہیں ہیں بلکہ معروف امریکی ماہرِ ماحولیات الڈو لیوپاڈ کے مطابق انسان محض اس دنیا میں 'زمین کے نگران' ہیں۔

ہمیں یہ زمین اپنے آباء و اجداد کی وساطت سے ملی ہے اور ہمیں اسے اپنی آنے والی نسلوں کو دےکر جانا ہے۔ ہمارا کام یہاں لوٹ کھسوٹ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اپنی عیاشیوں کے لیے اس زمین اور اس کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنا ہے۔ ہمیں اس زمین میں نئی جان ڈالنے کے لیے نئے اصول اپنانے ہوں گے، جس میں ایندھن کا کم سے کم استعمال ہو اور کاربن کا کم اخراج ہو۔

اس ضمن میں ہمیں اپنی طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ آپ ایک فرد کی حیثیت سے اپنی حرکتوں پر غور کریں۔ آپ اپنی حرکتوں کو الگ تھلگ نہ سمجھیں بلکہ آپ پوری دُنیا کا ایک حصہ ہیں اور آپ کی حرکتوں کے اثرات پوری دُنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دُنیا کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون دیں۔

مہاتما گاندھی نے اب سے سو برس قبل ہی ہمیں ایک حل بتا دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں 'سودیشی' معشیت کا تصور دیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو خود انحصاری، قدر و منزلت اور باہمی اشتراک پر منحصر ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے کے منصوبے پر غور کیا اور پھر اس منصوبے کے خدوخال پر وسیع پیمانے پر لکھا بھی۔

انہوں نے کہا کہ 'ایسا کرنے ( ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے ) سے ہر گاؤں ضرورت پڑنے پر پوری دنیا کے مقابلے میں خود کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ یہ نظام دراصل پیداوار کو غیر مرتکز کرنے کا نظام ہے۔ اس معاشی نظام میں ہر گاؤں وافر مقدار میں اشیاء پیدا کرے گا اور اس کے بعد اضافی پیداوار کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے گا اور اس کے بدلے میں وہ چیزیں حاصل کرے گا، جو وہ خود پیدا نہیں کرپا تا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ 'سوادیشی' نظام کو اپنائیں۔ یہ طریقہ کار کوئی منفی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب دوسروں کا بائیکاٹ کرنا یا دوسروں سے نفرت کرنا ہے بلکہ یہ خود انحصاری کا ایک طریقہ کار ہے۔

ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں ہر وہ چیز خود پیدا کرنی چاہیے جو ہم کرسکتے ہیں۔ ادویات سے لے کر خوراک تک ہر چیز ہمیں اپنے آس پاس ہی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں مقامی سطح پر چیزیں پیدا کرنےکا اختیار حاصل ہے۔

ہمیں سودیشی(ملکی) نظام اور استحکام کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ جب بھی ہمیں کوئی چیز خریدنی ہو تو ہمیں پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس کے متبادل میں کوئی اور ایسی چیز استعمال کرسکتے ہیں، جسے مقامی طور پیدا کیا جاسکتا ہے؟

آخری مرحلے پر ہمیں ایگرو اکولوجی انڈسٹریل فوڈ سسٹم( یعنی ماحول دوست زرعی نظام) قائم کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مویشیوں اور پولٹری کے فارمز نے نہ صرف انسانی صحت کو تباہ کردیا ہے بلکہ ان کی وجہ سے زمین بھی مہلک ہوگئی ہے۔

موجودہ نظام کی وجہ سے دنیا میں کسانوں کی خود کشی، کینسر کے پھیلاؤ اور چھوٹے کسانوں کی حق تلفی اور اُن کا استحصال جیسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مہلک اجزاء کی ملاوٹ کی وجہ سے ہمارے دریا آلودہ ہوگئے ہیں۔ لوگ ناقص خوراک کی وجہ سے ذیابیطس اور کینسر جیسے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھاد کی سبسڈی کی وجہ سے ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔

انٹرنیشنل میز اینڈ وہیٹ امپرومنٹ سینٹر(CIMMYT) کے پرنسپل، سائنٹسٹ ایم ایل جاٹ نے اپنی ایک حالیہ تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ ایگرو اکولوجی کے استعمال سے نہ صرف ہم صحت مند غذا فراہم کرسکیں گے بلکہ ہماری خوراک میں کیمیکل اور دیگر نقصان دہ اجزاء کی شمولیت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں ہم کہاں سے شروعات کرسکتے ہیں؟ ہمیں اپنے گھروں سے اس کی شروعات کرنی ہوگی۔ ہم سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ ہم دھنیا جیسی چیزیں چھوٹے برتنوں میں اُگا سکتے ہیں۔

کوشش کریں کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ خود اُگائیں۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو کسانوں سے رابطہ کریں جو آپ کو یہ کام کرکے دے سکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں وہ پھلواریاں قائم کرسکتے ہیں ۔اس طرح سے ہم اپنے بچوں کو بھی سکھا سکتے ہیں کہ چیزیں کیسے اُگائی جاتی ہیں۔

ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہم گرین اکانومی قائم کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری زمین میں نئی جان پیدا ہوگئی اور ہمیں معاشی خود اختیاری حاصل ہوگی۔

اب جبکہ دُنیا اقتصادی بدحالی کا شکار ہوچکی ہے، بھارت کو از سر نو خود کو کھڑا کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی عادات اپنانی ہوں گی۔

مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ سودیشی نظامِ معیشت پہلے ہی ہمارے پاس ہے۔ آج اس یوم ارض پر ہمیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم سائنسی بنیادوں پر از سر نو متحرک ہوجائیں گے اور اپنی زمین کو تحفظ فراہم کریں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.